... loading ...
جاوید محمود
ہمیں نہیں بھولنا چاہئے تھے کہ بڑی طاقتوں نے نو گیارہ کے واقعہ کے بعد ایک ایک کر کے اسلامی ممالک کو ٹارگٹ کیا جس میں عراق لیبیا، شام اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان میں سے عراق اور لیبیا بری طرح تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر چہ اس منصوبے میں پاکستان، افغانستان اور ایران کو بھی ٹارکٹ کرنا تھا لیکن چونکہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں بڑی طاقتوں کے ساتھ فرنٹ میں کھڑا تھا۔ اس لیے براہ راست اسے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن کر تقریباً80 ہزار شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور معاشی طور پر 100 ارب ڈالرز کا بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ اس دوران بھارت اور اسرائیل میں قربت بڑھی اور انھوں نے ایران اور پاکستان کو داخلی طور پر نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی جاری رکھی جو آج تک جاری ہے۔ نو گیارہ کے بعد اسرائیل نے بڑی طاقتوں سے مل کر ان ممالک کو نشانہ بنانا شروع کیا جو فلسطینیوں کی حمایت کے ساتھ ان کی مالی امداد کرتے رہے۔ واضح رہے اسرائیل کئی موقعوں پر اعتراف کر چکا ہے کہ ایران ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جبکہ دوسرا پاکستان ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کی یہ پوری کوشش ہے کہ ایران اور پاکستان کو آمنے سامنے کھڑا کر کے ایک ایسی جنگ کی بنیاد رکھے تاکہ دونوں ملک اس میں الجھ جائیں۔ اور وہ اپنا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
دوسری طرف بڑی طاقتیں اپنے لئے یہ سنہری موقع سمجھ رہی ہیں جوبرسوں سے بلوچستان کے زیر زمین لا محدود سمندر کی مانندپھیلی معدنیات کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کھیل میں بھارت اور اسرائیل بڑی طاقتوں کے لیے آکسیجن کا کردار کر رہے ہیں، ایک طرف اسرائیل اور بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں کے اسلحہ اور مالی امداد دے کر ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کی بڑے مثال کلبھوشن اور را کے ایجنٹوں کی گرفتاری ہے ؟ جو ایم کیو ایم کی پشت پناہی کے ساتھ مالی امداد فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک (ایران) جس کی پاکستان عالمی سطح پر سفارتکاری کرتا آیا ہو ،اس نے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر اپنے ہی سفیر کے خلاف غیر متوقع محاذ کھول دیاہے ، ایران کی طرف سے پاکستان پر حملے اور پھر پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد اب یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایران اور پاکستان پر امن ہمسائے اور دوست ہیں یا پھرحریف ؟
اگر دونوں ممالک کے تعلقات کے تاریخی منظر پر نظر ڈالی جائے تو ایران وہ پہلا ملک تھاجس نے1947 میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ پہلے دن سے ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اس کے علاوہ دیکھا جائے تو ایران ہر فورم پر کشمیر سمیت ان اہم معاملات پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرنا آیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہمیت کے حامل ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 1965 اور 1970 میں انڈیا اور پاکستان کی جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا۔ صور تحال نے اُس وقت کروٹ لی ،جب 1979میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو ایران مغرب مخالف کیمپ میں جا کھڑا ہوا ، اور یہی وہ وقت تھا جب ایران نے عرب ممالک کو بھی عرب بمقابلہ عجم کے تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔
ایران ابھی اسلامی انقلاب کی جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف تھا کہ بڑی طاقتوں کی شہ پر آکر صدام حسین نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اس کے جواب میں ایران نے بھی عراق کو بھر پور جواب دیا جس کے نتیجے میں یہ جنگ سات سال گیارہ ماہ تک جاری رہی جس میں دونوں ملکوں کے پانچ لاکھ فوجی اور شہر ی مارے گئے۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنے منصوبے میں کا میاب ہو گئیں اور اس جنگ میں مسلمانوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایران کے انڈیا کے ساتھ قریبی روابط پر تشویش بھی پائی جاتی ہے جس کی ابتدا بالخصوص مئی 2016 میں اس وقت ہوئی جب وزیر اعظم مودی نے ایران کا دورہ کیا اور پھر ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے انڈیا، ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعلقات کے لیے 550 ملین ڈالرز کے فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ ایک معاملہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کاہے جس کا افتتاح مارچ 2013 میں پاکستان اور ایران کے صدور نے کیا تھا۔ ایران کا الزام رہا ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے دباؤ پر اس منصوبے سے پیچھے ہٹا اور اسے مکمل کرنے سے عاری ہے۔ ایران نے اپنی طرف سے 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی اور کام مکمل کر کے پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک پہنچاد ی، مگر پاکستان ابھی بڑی طاقتوں کے باعث اپنے حصے کا کام نہ کر سکا۔ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے مختلف اندرونی مسائل کا شکار ہے اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیت، سیاسی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے واقعات نے پاکستان کو متعدد محاذوں پر مصروف رکھا ہے۔ ایسے میں ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی جہاں پاکستان کے لیے ایک پریشان کن پیشرفت ہے وہیں اسے دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات میں ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے اپنے مشرقی اور مغربی پڑوسی ممالک انڈیا اور افغانستان کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں اور ایسے میں ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو خطے میں سفارتی اور جغرافیائی اعتبار سے اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں عام انتخابات 8 فروری کو منعقد ہونے ہیں اور ملک کو معاشی بدحالی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک سے لیے گئے قرض واپس کرنے کی معیاد بڑھانے کی درخواست کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ پہلے سے اندرونی مسائل سے دو چار پاکستان اب اپنے تین ہمسایہ ممالک انڈیا ، افغانستان اور ایران کے ساتھ کر سرحدی محاذآرائی میں الجھ گیا ہے۔ پاکستانی فوج پہلے ہی ملک کے اندر بہت سے شدت پسند باغی گروپوں سے لڑ رہی ہے اور اس صورتحال میں ایران کی جانب سے حملے نے پاکستان کے سیکورٹی سسٹم پر مزید دباؤ بڑھا دیا۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایران کو اسرائیل کی غزہ جارحیت کے باعث موساد کی سازشوں کے باعث کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے جس میں بحیرہ احمر بھی شامل ہے ۔ان حالات میں جبکہ پاکستان کو بڑی طاقت کی سازشوں نے جس میںاسرائیل اور بھارت بھی شامل ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان نے ان حالات میں اپنے تین بحری جنگی جہاز بحیرۂ احمر کیوں بھیجے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ آج ایران اور پاکستان جن بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ ان کے پیچھے انھیں کا ہاتھ ہے۔