... loading ...
ریاض احمدچودھری
غزہ جنگ میں حماس کے ہاتھوںپکڑے جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کے لواحقین نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا اور کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں قانون سازوں سے مطالبہ کیا وہ ان کے پیاروں کی رہائی کیلئے مزید اقدامات کریں۔یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے کہا تم سب ابھی کرسیوں سے اٹھ جاؤ۔آپ یہاں نہیں بیٹھیں گے جب تک ہمارے بچے وہاں مر رہے ہیں۔مظاہرین سکیورٹی حصار توڑ کر پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود کمیٹی میٹنگ روم میں داخل ہوئے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔لواحقین نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حماس کے ساتھ معاہدے سے مسلسل انکار کی ضد پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور وہاں چیخ و پکار کرتے ہوئے تین ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہ بنانے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اس سے قبل مرکزی تل ابیب اسکوائر میں حکومت کے خلاف ہزاروں افراد جمع ہوئے، جن میں اکثریت گزشتہ برس احتجاج کرنے والوں کی تھی ۔یرغمالیوں کی رہائی میں حکومتی ناکامی پر برہم مظاہرین نے نیتن یاہو کو شیطان کا چہرہ قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو حکومت پر اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے الزامات عائد کردئیے مظاہرین نے اسرائیلی پرچم تھاما ہوا تھا اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے اور ڈھول بجاتے ہوئے نیتن یاہو کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔حماس کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ایک فوجی کے بھائی نے بتایا کہ حکومت نے ہمیں جس طرح 7 اکتوبر کو چھوڑا تھا وہ سلسلہ تاحال جاری ہے، تبدیلی اور معاملات ٹھیک کرنے کے لیے طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے دوران اغوا کیے گئے 130 سے زائد افراد لاپتہ ہیں، نومبر کے آخر میں چھ روزہ جنگ بندی کے دوران حماس نے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کو معاہدہ کرنا پڑیگا۔ اسرائیل 100 روز بعد بھی بزور طاقت یرغمالیوں کو رہا کرانے میں ناکام رہا ہے۔ اسرائیل معاہدے کے ذریعے یرغمالیوں کو واپس لیگا یا ان کی لاشیں لیگا۔یہ فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہے۔ حوثی فلسطینیوں کے ساتھ حقیقی اور مؤثر یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، تمام قوتیں غزہ میں نسل کشی بند کرانے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کریں۔
اسرائیل کے نہتے فلسطینیوں پر مظالم جاری ہیں۔ شمالی وجنوبی غزہ میں شدید بمباری سے گزشتہ 24گھنٹے میں مزید 178فلسطینی شہید، 293زخمی ہوئے جس کے بعد شہداء کی مجموعی تعداد 25 ہزار 474 ہوگئی ہے۔ صیہونی فوج کی جانب سے خان یونس میں بمباری سے بڑے پیمانے پر شہادتوں کا خدشہ ہے۔ جبکہ الشفا اور ناصر ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 7اکتوبر سے جاری حملوں میں اب تک زخمی ہونے والوں کی تعداد 62ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یرغمالیوں کی رہائی کیلئے حماس کے جنگ بندی کے مطالبے کو پھر مسترد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حکام امداد کی رسائی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ بوریل نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر اصرار کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ غزہ میں فوج اور طاقت کے استعمال سے معاملہ حل نہیں ہو گا۔ کیا اسرائیل کے نزدیک تمام فلسطینیوں کو قتل یا بیدخل کر دینا ہی حل ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے فلسطین کا مسئلہ حل ہونے تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہ لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی بات نہیں ہوسکتی۔ فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں استحکام کی ضرورت ہے، استحکام کے ذریعے ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ غزہ میں جاری تصادم میں کمی اور عام شہریوں کی اموات کو روکنا سعودی عرب کے لیے سب سے اہم ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ اور وہاں کی سویلین آبادی کو کچل رہا ہے جو مکمل طور پر غیر ضروری ہے، یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے جسے روکنا ہے۔ جنگ میں شہید ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔یہ جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے۔نتین یاہو کے تازہ بیان کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکی شہ کے بعد نتن یاہو پاگل ہو چکا ہے اور امن کی راہ کی طرف نہیں جانا چاہتا،حالانکہ پوپ فرانسس بھی کئی اپیلیں کر چکا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی ختم کرنے اور انسانی راہداری کھولنے کا مطالبہ کرتا ہوں، امن کی بات کیسے کی جاسکتی ہے جب ہتھیاروں کی تجارت عروج پر ہو۔ انتونیو گوتریس سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ رکنا چاہیے، شہری خوراک، صاف پانی اور ادویات کی قلت سے بھی شہید ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کی ہٹ دھرمی دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل سے متعلق امریکی صدر کے بیانات کو مسترد کردیا اور کہا کہ مغربی اردن پر اسرائیلی کنڑول پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے تل ابیب میں ہزاروں افراد نیتن یاہو کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انہیں حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، برطانیہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، لندن میں ہتھیار ساز کمپنی کے سامنے سڑک پر ”فلسطین آزاد کرو” کے نعرہ لکھ دیا گیا۔ سوئیڈن میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور اسرائیل مخالف نعرے لگائے گئے۔ اسپین میں بھی مظاہرے کے دوران غزہ میں نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔