... loading ...
سمیع اللہ ملک
جب سے متعصب مودی نے اقتدارسنبھالاہے،بھارت میں آرایس ایس اوربی جے پی کے غنڈوں نے تمام اقلیتوں کاجینا دوبھراور قبرستان بناکررکھ دیاہے اوربالخصوص مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم وستم کی انتہاہوگئی ہے۔یہ متعصب غنڈے جب جی چاہے کسی مسلمان کوپکڑکرکسی بھی جگہ لے جاتے ہیں ،ایک غنڈہ موبائل پرفلم بناتاہے،دوسرا مسلمان کوحکم دیتا ہے، جے شری کاکانعرہ لگاؤ۔حکم عدولی پربے پناہ تشدد کیا جاتاہے اوراگرمضروب مجبوری میں ان کے حکم کی تعمیل کرے تواسے بارباریہ نعرہ لگانے پرمجبورکیاجاتاہے،اس پرجب دل نہیں بھرتا تو پاکستان اوراسلام کوغلیظ گالیاں دینے پرمجبورکیاجاتاہے جس کے بعدسرعام ہاتھ میں پکڑے ہوئے گنڈاسے یاتلوارسے خوفناک وارکرکے اس کوموت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے اورمجبورومقہورجان بخشی کیلئے گڑگڑاتاہواشہیدہوجاتاہے جس کے بعدآرایس ایس کادوسراغنڈہ اس کی لاش پرتیل چھڑک کرآگ لگادیتاہے اورپاکستان کو دہمکی دیتاہے کہ بھارت کے خلاف جہادبندکروورنہ یہاں مسلمانوں کایہی حشر کریں گے۔یہی سلسلہ مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج نے بھی شروع کررکھاہے۔وہ کشمیری نوجوانوں کوپکڑکر ان پربہیمانہ ظلم وستم اورمارپیٹ کے دوران انہیں بھی پاکستان اوراسلام کوگالیاں دینے پرمجبورکرتے ہیں اورڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ بعدازاں سوشل میڈیاپریہ ویڈیو وائرل کی جاتی ہے تاکہ کشمیری مسلمانوں دلبرداشتہ ہوکرجدوجہد آزادی میں حصہ نہ لیں۔
مجھے ایک پاکستانی دانشوردوست نے بتایا:میں نے ایک ایسا ہی ویڈیوکلپ جوآر ایس ایس نے وائرل کیاتھا،اپنی فیس بک پرچند روز کیلئے لگایاتومیری فیس بک اورپیج دودن کیلئے بندکردیئے گئے۔حیرت تواس بات پرہے کہ وہی ویڈیوکلپ جس بھارتی پیج سے میں نے لیا تھا، وہ کئی ماہ سے ایسے ویڈیو کلپ چلارہاہے اوراب بھی کئی ایسے خوفناک ویڈیوکلپ اس کی فیس بک پرچل رہے ہیں لیکن اس پرکوئی پابندی نہیں۔ میں نے تویہ کلپ ان پاکستانیوں بقراطیوں کیلئے وائرل کیاتھاجودن رات اس متعصب بھارت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اورانہیں اس وقت نیندنہیں آتی جب تک وہ کسی بھارتی فلم کودیکھ نہ لیں اوربے شرمی کی حد تویہ ہے کہ ایک ایسے ہی متعصب ہندونے سوشل میڈیا پر شواہد کے ساتھ یہ پیغام نشر کیاکہ ہماری فلموں کے سب سے زیادہ شوقین پاکستانی ہیں جن کی بنا پرہمارایوٹیوب منافع میں چل رہاہے اوریہ بھی شنیدہے کہ بعض پاکستانی سینماں میں ٹھاٹھ سے وہ فلمیں بھی بغیر کسی سنسر کے چل بھی رہی ہیں جس کودوسرے مسلمان ممالک نے اپنے ہاں سینماں میں چلنے کی قطعا اجازت نہیں دی۔بے غیرتی کایہ عالم ہے کہ ہمارے ہاں سنسربورڈکے سربراہ کی جب اس معاملے پرتوجہ دلائی گئی توانہوں نے انتہائی بے شرمی سے اسے اظہارآزادی پرقدغن قراردیتے ہوئے سوال پوچھنے والے کوجھڑکناشروع کردیا۔
بھارتی دہشت گردی اوربھارتی دہشتگردوں کے کرتوت ہمارے اپنے مہربان ہی لوگوں کے سامنے نہیں لانے دیتے،یہی وجہ ہے کہ ہم آج پوری دنیامیں انتہائی نچلے درجے کوپہنچ چکے ہیں۔جہاں تک بھارت کی دہشتگردحکومت کاتعلق ہے تواس نے وندے ماترم،سوریہ نمسکار اوریوگاکے نام پر مسلمانوں کے مذہبی استحصال کے ساتھ بی جے پی کے لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کاسلسلہ بھی شروع کر رکھاہے حتی کہ یہاں تک کہاگیاکہ جوسوریہ نمسکارنہیں کرتااسے ہندوستان چھوڑکرچلاجانا چاہئے۔بعض فرقہ پرست لیڈروں کے مطابق یوگا کرنے سے اسلام منع نہیں کرتا کیونکہ یوگاتوایک قسم کی ورزش ہے جوصحت کیلئے سودمندہے۔ان کایہ بھی کہناہے کہ کئی مسلمانوں ملکوں میں یوگا کیاجاتاہے توپھربھارتی مسلمانوں کویوگاپرکیوں اعتراض ہے لیکن یوگاکی حمائت میں بات کرنے والے فرقہ پسندمسلم دشمنوں کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ کچھ مسلمان ملکوں میں یوگاکیا جاتاہے لیکن وہاں یوگا کے دوران منتروں کاجاپ اور سوریہ نمسکار نہیں کیاجاتامگربھارت میں یوگا کے نام پرمسلمانوں کو مجبورکیاجاتاہے کہ وہ سوریہ نمسکارکریں،اوم کاجاپ کریں۔اس مذموم پروگرام میں بلا تفریق سارے ہندوستانیوں بشمول مسلم اقلیت کی شرکت پرحکومتی اصرارغیرجمہوری،غیراخلاقی اوراسلام مخالف طرزِعمل ہے۔
ایک سال قبل سب وکاس کانعرہ لگاتے ہوئے مودی حکومت نے مسندِ اقتدارپرتسلط جمایامگراس دورِحکومت میں فرقہ پرستی انتہا کوپہنچ چکی ہے جبکہ یوگامیں شامل سوریہ نمسکاراور اشلوکوں پرمبنی منترپڑھنے کاعمل بھارتی سیکولرآئین کی روشنی میں ملنے والے بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔مودی حکومت کے نمائندے غیرجمہوری بیانات دینے اور مسلمانوں کی مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہیں اورگائے کاگوشت کھانے والوں کوپاکستان بھیجنے کی دہمکی دینا،گھرواپسی اورچارشادیوں کاتمسخراڑاناان کامعمول بن چکاہے۔یوگااصل میں گیان اوردھیان کاایک طریقہ ہے جس کامقصد بھگوان کے آگے خودسپردگی ہے۔سوریہ نمسکاریعنی سورج کی پوجا یوگا کا اہم عنصرہے۔ یوگا بنیادی طورپریوگ سے نکلاایک لفظ ہے جس کے معنی جوڑکے ہیں۔یوگ کی تاریخ اورپس منظرسے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ درحقیقت ہندوں میں عبادت کاایک طریقہ ہے۔بنیادی طورپرہندوازم کابنیادی فلسفہ ہے جس میں آتما (روح) پرماتما (بھگوان) اور شریر(جسم) کومراقبے کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یوگ کاپہلاطریقہ ہندوؤں کے مطابق ان کے بھگوان شنکرنے ایجادکیاتھااوردوسراطریقہ پنانچلی نام کے یوگ گرونے شروع کیا تھا۔ لوگ ہندوؤں کے علاوہ بدھ مت کے ماننے والوں میں بھی رائج ہے۔یہ محض ایک ورزش نہیں کیونکہ اس کی ایک مذہبی حیثیت رہی ہے۔ یوگ کے دوران مذہبی اشلوک کی ادائیگی بھی اس کاحصہ ہے۔ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہزاروں آشرم قائم ہیں اورحکومت کی طرف سے انہیں سرکاری امدادبھی دی جاتی ہے جبکہ مودی کی حکومت کی تشکیل میں اہم کردارادا کرنے والے ”بابارام دیو”یوگاکے سب سے بڑے پیروکار ہیں اورانہی کی کوششوں سے اقوام متحدہ میں یوگاکاعالمی دن منانے کااعلان کیا گیاتھاجس میں بھارتی فرقہ پرست وزیراعظم مودی اور آرایس ایس کے پرچارک مودی نے اہم کرداراداکیا۔مودی حکومت بھارت کوہندوراشٹربنانے کے ایجنڈے پرعمل پیراہے اوریوگاکا عالمی دن منانے کے پیچھے بھی حکومت کامقصدکارفرما ہے۔
مودی نے اپنے اقتدارکے پہلے سال میں27ستمبر2014کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن میں خطاب میں بین الاقوامی برادری سے یوگاکیانعقاد کی اپیل کی تھی ۔ 11دسمبرکوجنرل اسمبلی نے اس تجویزکو21جون کوعالمی یوگاڈے منانے کی تجویزکواتفاق رائے سے منظورکرلیا۔بھارت کی موجودہ(مودی)سرکارچانکیہ کے نقش قدم پرچل رہی ہے۔اس کی دوواضح پالیسیاں ہیں،اول ان تمام جھوٹے وعدوں کوبھارتی عوام کے دماغ سے صاف کردیاجائے جومودی نے الیکشن کے دوران کیے تھے تاکہ ہندوستانی عوام سمجھنے کے اہل ہی نہ رہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ یاٹھگی ہوئی ہے اورناراض ہونے کی بجائے مودی کی مالاجپتے رہیں۔ دوم،ہندواکثریتی طبقے کے دماغوں میں ہندتواکے مفروضے کا اس طرح پرچارکیاجائے کہ انہیں یوں لگے کہ اب وہ ایک ہندودیش کے شہری ہیں اورہندوسنسکرتی دنیا میں سب سے اعلی ہے اورہندو عوام کویہ فضیلت سنگھ پریواراورمودی کے طفیل ہی مل سکی ہے۔ان دونوں پالیسیوں کوہندوستانیوں کے دل ودماغ میں متواترپختہ کیاجارہاہے۔ویدک کال میں جنگی جہازوں کا استعمال اس قدیم دورمیں جدیدمیڈیکل سائنس کی کرشماتی سرجری سے بھی زیادہ پیچیدہ آپریشن اوراب یوگاکی اچانک اس قدرتبلیغ الیکشن کے دوران مودی باقاعدہ اعلان کرتے تھے کہ انہیں خودبھگوان نے بھیجا ہے تاکہ اس دیش کا کلیان کرسکیں۔
آج سے پچاس سال قبل امریکااوریورپ سے سیاح کثیرتعداد میں بھارت آناشروع ہوئے،اس زمانے میں ہندوعوام سادھوں اور سنتوں کوکسی اور دنیاکی مخلوق سمجھتے تھے اوران کو سمجھنے کیلئے ان کے آشرموں میں قیام کرتے تھے۔ان سادھوں، سنتوں کی سیوا کرتے اور بدلے میں تین چیزیں(بھنگ،گانجااوریوگا)ساتھ لے جاتے۔ ان سیاحوں کیلئے رشی کیش ،ہری دوارکے آشرم ہی تھکانے والے تھے جہاں ہندویوگی اورسادھوچلم کے کش کے ساتھ دیگربیہودہ اعمال کی تعلیم دیتے تھے۔ان لوگوں نے امریکااوریورپ میں بھی آشرم قائم کیے اورلوگوں کویوگاکی تعلیم دینے لگے جس سے کروڑوں ڈالرکماتے۔ہندو دھرم میں تمام علوم کاسرچشمہ ویدہیں اورویدوں کے عالم اورتخلیق کاروں نے یہ سسٹم ایجادکیا، اس لئے مختلف آسنوں کے دوران مختلف دیوتاں سے شکتی اورصحت پرارتھناکی جاتی ہے،ان کی تعریف کی جاتی ہے۔سوریہ(سورج)آسن میں سورج کے سامنے ڈنڈوت کیا جاتا ہے۔منتراوراشلوک پڑھ کران سے مددکی درخواست کی جاتی ہے۔ ظاہرہے کہ مسلمان یوگاتوکرسکتے ہیں لیکن اشلوکوں کے وردسمیت یہ تمام اعمال انجام نہیں دے سکتے جوغیراللہ کی پرستش پرمحمول ہیں مگرسب کے سب مسلمان ہرمذہبی رسم کی تہ تک پہنچتے کی حاجت محسوس نہیں کرتے اوران کی آزاد اورغیرجانبدار طبیعت بے حدمضررساں بھی ثابت ہو رہی ہے ، دوسری طرف مسلمانوں اوردیگر غیرہندوؤں کومرتدکرنے کی مہم سونے پرسہاگے کاکام دے رہی ہے۔
جس مذہب کی اساس گائے کی تقدیس ہے اورجوبے شماراوہام اورلایعنی رسوم کامجموعہ ہے،اسے کوئی غیرہندوکس طرح قبول کرے۔یہ وہ لاینحل مسئلہ ہے جوآج کل مودی سرکار میں ہندوستان کے ان تمام باشندوں کیلئے سوہانِ روح بن گیاہے جوہندودھرم پرایمان نہیں رکھتے، اس صورتحال سے بھارت کے عیسائی ،پارسی،بدھ مت کے ماننے والے، کیمونسٹ حتٰی کہ دہریے بھی پریشان ہیں۔اس صورتحال کا محرک ہندوں کاروحانی گرو”مدھویوسداشیوگولواکر”ہے۔اس نے مودی سرکارکی شہہ پاکراپنانعرہ ہندوراشٹرابڑی تیزی سے بلند کیا ہے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پراعلان کررہاہے کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام غیرہندواپنی جان کی امان چاہتے ہیں توہندودھرم اورہندوبود وباش اختیارکرلیں بصورت دیگران کی زندگی ہلاکت کی زدمیں رہے گی۔مدھویوسراشیو مدت سے ہندودھرم کاپرچارکررہاہے۔وہ تمام مسلمانوں، عیسائیوں، بدھوں،پارسیوں حتی دہریوں کوبھی تاکیدکررہاہے کہ ہندو راشٹرکافلسفہ قبول کرلوکیونکہ ہندوفلسفہ قومیت کی بنیادہے۔
بھارت کے کمیونسٹ ہندوتراشٹراکے فلسفے پرتعجب کااظہارکررہے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ اگرمذہب ہی قومیت کی بنیادمان لیا جائے تو پھر بھارت اورنیپال دونوں ملک ایک ہی دھرم کوماننے والے ہیں،یہ دونوں آپس میں ضم ہوکرایک قوم کیوں نہیں بن جاتے۔ برما اور سری لنکایکساں نوعیت کاایک ہی دستوراختیارکیوں نہیں کرتے؟ اکثرپڑھے لکھے تعصب سے ماورالوگ ہندو دھرم کے تضادات پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پروفیسرڈی این جھا،پروفیسرآرایس شرما،رومیلاتھاپراورڈی سی کوسمبی نے مستندتاریخی حوالوں سے لکھاہے کہ ہندوستان کے قدیم برہمن گائے کاگوشت کھایاکرتے تھے جبکہ نیپال کے ہندو توآج بھی ہرقسم کی خوشی کی تقاریب میں بیل کے گوشت کا پکوان پکاتے ہیں۔ اس صورتحال میں گاؤکشی کے نام پرمسلمانوں کوکیوں قتل کردیاجاتاہے؟
ہندودھرماکاایک اہم اثاثہ ویدہیں لیکن اس کے متن میں یکسانیت نہیں ہے۔گاندھی اپنی روزانہ کی دعائیہ مجلس میں قرآن کریم، انجیل اور گیتاکے اسباق پڑھاکرتے تھے۔ ہرچند ان کایہ عمل مذہبی سے زیادہ سیاسی تھاکیونکہ وہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کوایک قوم بنانا چاہتے تھے۔جسٹس دیپک دوااورمودی بھی گیتا پڑھتے ہیں۔احمدآبادکاشاعر احسان جعفری عالمگیرانسانیت پریقین رکھتاتھا،جواہرلال نہرو کاپیروکارتھا۔اس نے زندگی بھرپیرا،گوتم بدھ اورگورو نانک جیسے شخصیات کے محاسن پر نضمیں لکھیں لیکن گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذمہ دارمودی کے چیلوں نے انہیں بھی نہیں بخشا۔اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اوراس کے گھرکے سارے اثاثہ کو جلاکرخاکسترکردیا۔ اسی طرح احمدآبادہی کی ایک مغنیہ رسولاں بائی کاگھربھی جلا دیاحالانکہ وہ ہرنغمے کی دھن سے پہلے رام اورکرشن کے نام کاپاٹھ پڑھاکرتی تھی۔
معروف بھارتی اخبارانڈین ایکسپریس میںسوامی اکنی ویشایک مختصرآرٹیکل میں دہائی دیتاہوانظرآیاتوسوچاآج کے متعصب ہندوؤں کو ان ہی کے ائینے میں ان کاچہرہ دکھادوں:”وہ لکھتے ہیں کہ جوچیزمیرے لئے انتہائی تکلیف کاباعث ہے وہ اس کافرقہ وارانہ ایجنڈاہے جو نہایت غلط اورنقصان دہ ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ رام بھگوان تھے اوربھگوان نرادھار یعنی جس کی کوئی شکل وصورت نہیں ہوتی تو آخر جو نرادھار ہوتواس کی جائے پیدائش یاجنم بھومی کی نشاندہی کیسے ہوسکتی ہے؟یہ انسانی عقل ودانش کی سراسرتوہین ہے کہ خداکی شکل و صورت کا کوئی اپنے اندازسے تعین کرے۔میرے لئے یہ انتہائی دکھ اورتکلیف کی بات ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کااستحصال کیاجارہاہے،نفرت اور فرقہ پرستی کازہرگھولا جارہاہے ۔ رام کے نام پریہ سراسرغلط کام کاپرچارہورہاہے۔گاندھی جی ایک راسخ العقیدہ ہندوتھے،جب وہ قتل کیے گئے توان کی زبان پررام کانام نہیں بلکہ جے رام تھا۔ان کی عقیدت مندی شک وشبہ سے بالاترہے۔انہوں نے کبھی رام مندرکامسئلہ نہیں اٹھایا،وہ یہ بھی کہتے تھے کہ خداصرف مندرمیں نہیں،وہ ہرجگہ رہتاہے۔خداکسی مسجد،مندریاچرچ میں مقیدنہیں ہوتا۔ گاندھی جی نے شائد ہی کسی مندرمیں وقت گزاراہو بلکہ وہ اکثرکہاکرتے تھے کہ مندروں میں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی۔
اسلام اورعیسائیت سے بالکل الگ ہندومت ایک خاندانی روحانیت پرمبنی ہوتاہے۔میں جانتاہوں کہ خداپروتیوں اورپنڈتوں کا جانبدار نہیں ہوتا،اس لئے کہ ہماراگھربھی مندرہے ۔یہ سب اس وقت ہواجب بڑی ذات کے لوگوں نے دھرم کواچک لیااوراپنے مفاد کیلئے اس کاستعمال جائزکرلیا۔اس وقت سے سنائن دھرم پنڈتوں اورپروتیوں کے قبضے میں ہو گیا،حقیقت خرافات میں کھوگئی اورتوہم پرستی، استحصال،فریب اوردھوکہ دہی کاسلسلہ شروع ہوگیا۔آج ہماری یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم اس پرمنہ نہیں کھولتے ،بند رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سرحدپارکے لوگوں سے مغلوب ہوئے،مغل بادشاہوں اورانگریزوں نے ہمیں اپنے بس میں کرلیا ۔سنائن دھرم کے
لوگ کبھی ترقی نہیں کرسکتے جب تک وہ توہم پرستی اوربے عقلی کے خول سے باہرنہ آئے۔ہم جنم بھومی کے معاملے پررجعت پسندی،بے عقلی اورفرقہ پرستی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہ ایک جنگ ہے جوسستی شہرت اوراقتدارکی کرسی حاصل کرنے کیلئے کی جارہی ہے۔وہ لوگ جوعقیدے ویدے سے واقف ہیں وہی اسے ہندومت کی ترقی کہہ سکتے ہیں اوراس کیلئے لڑائی لڑسکتے ہیں۔میں اس عقیدے کوبڑی اچھی طریقے سے جانتاہوں،اس سے میری محبت ہے اوریہی وہ وجہ ہے کہ آج مودی ٹولے کی اس گمراہی اورضلالت کوکسی طرح بھی قبول نہیں کیاجاسکتا”۔
سوامی کے اس مضمون کواگریوگاسے جوڑاجائے تویوگاکی آڑمیں مذہبی تعصب کے پرچار کی سازش بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔ عین عام انتخابات کے قریب ملک بھرمیں جس طرح تقاریب منعقد کی جارہی ہیں اورجس بڑے پیمانے پران کوسرکاری سرپرستی فراہم کی جارہی ہے، وہ نہ صرف ملک کے سیکولر دستورکیخلاف ہے بلکہ منصفانہ انتخابات کی روح سے بھی متصادم ہے۔ ایودھیامیں رام مندرکے افتتاح کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے بھارت میں مسلمانوں میں اضطراب بڑھتاجارہاہے۔ رام مندرکے افتتاح کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔خود وزیر اعظم نریندرمودی اس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔انہوں نے ہندووں سے 22جنوری کوملک بھرکے مندروں میں خصوصی پوجااوردیگرتقاریب کا اہتمام کرنیکی اپیل کی ہے اورہندووں سے اس دن اپنے اپنے گھروں پربھی”بھگوان رام”کویادکرنے پر زوردیاہے۔
رام مندر کی مجلس منتظمہ کے جنرل سکریٹری نے مندرکی افتتاحی تقریب کاموازنہ یوم آزادی سیکردیاہے،جوکہ غلط اور تکلیف دہ ہے اور یہ بیان ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے والا ہے ۔ بھارتی مسلمانوں کے رہنماں نے اس صورت حال پرفکر مندی کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ ”رام مندرسے متعلق مجوزہ تقاریب کوسیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوششیں تشویش کاباعث ہیں۔اسی لئے اہم مسلم مذہبی اور سماجی رہنماوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے مسلمانوں اور ملک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امن و امان کی برقراری کی ہر ممکن کوشش کریں۔ انہوں نے مرکزی اورریاستی حکومتوں سے بھی صورت حال پر سخت نگاہ رکھنے کی اپیل کی ہے۔
بھارتی اخبارانڈین ایکسپریس میں”سوامی اکنی ویش” اپنے آرٹیکل کے آخرمیں لکھتے ہیں کہ”یہ آج کے بھارت کی وہ سرگرمیاں ہیں جنہوں نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔شدھی یعنی مسلمانوں کوہندوبنانے،مسلمانوں کی بستیاں جلانے اوران کاخون بہانے کی تحریک ہندوستان میں بہت پہلے سے موجودتھی لیکن اب مودی حکومت میں یہ تحریک ایک وبا اوربلائے بے اماں کی شکل اختیارکرچکی ہے۔آج خودبھارت میں ہرصاحبِ ضمیرشخص یہ سوال کر رہا ہے کہ کیااب بھارت کاسیکولرآئین اندھااور انسانی حقوق کاکاعالمی منشوراپاہج ہوگیاہے؟کیااب بھارت میں کسی مہذب انسان کواپنے افکارکے مطابق زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟”