... loading ...
جاوید محمود
20 ویں صدی کے وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد مواقع پر اس غلبے کے ٹوٹنے ختم ہونے یا کمزور پڑنے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ یکم جنوری 1999ء میں یورپی کرنسی یورو کے متعارف ہونے کے بعد اور 2008 میں امریکا سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بھی امریکی ڈالر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ۔گزشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھی ڈالر کے خاتمے کی بات کی گئی۔ مگر یہ کرنسی بدستور بڑی کرنسی کی صورت میں دنیا میں موجود ہے ۔ لیکن یوکرین جنگ نے ڈالر پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس جنگ نے عالمی منڈی میں یو آن کو پاؤں جمانے کا موقع فراہم کیا، یو آن کی ترقی کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کا دنیا پر غلبہ کب، کیوں اور کیسے ہوا ؟ آسان الفاظ میں کسی بھی ایک غیر ملکی کرنسی کی مقبولیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے جاری کرنے والے ملک کی معاشی اور اسٹریٹیجک پالیسی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی غیر ملکی کرنسی مضبوط ہوتی ہے تو دوسرے ممالک کے مرکزی بینک بھی اسے اپنی ریز رو کرنسی کے طور پر رکھیں گے ۔
امریکی انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے پیٹرا رل کے مطابق 1450 کے بعد سے دنیا نے ریزرو کرنسی کے چھ بڑے ادوار دیکھے ہیں جن میں 1530 تک پرتگال کی کرنسی غالب تھی ۔ اسے ا سپین کی کرنسی نے پیچھے چھوڑ دیا۔ 17 ویں اور 18 ویں صدیوں میں نیندر لینڈز ڈچ اور فرانس کی کرنسیوں نے عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کیا ۔جسے برطانوی سلطنت کے عروج نے سمیٹ لیا۔ پہلی جنگ عظیم تک برطانوی پاؤنڈ اسٹرلنگ زیادہ تر ممالک کی ریز رو کرنسی ہوا کرتی تھی۔ لیکن 1980 کی دہائی کے بعد سے امریکی معیشت اور عسکری قوت نے اپنی دھاک جمانی شروع کر دی اور ڈالر نے عالمی تجارت میں پاونڈ کو پیچھے دھکیل دیا جو آج تک برقرار ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2022 تک دنیا کی تقریباً 75 فیصد تجارت صرف امریکی ڈالر میں ہوئی ہے اور آج بھی دنیا بھر کے 59 فیصد ممالک کے پاس امریکی ڈالر موجود ہے لیکن اس کے برعکس بہت سے ممالک نے اپنی غیر ملکی تجارت یا قرض کے لیے دوسرے آپشتر تلاش کرنا شروع کردیے ہیں ۔
برازیل کی وزارت خزانہ میں بین الاقوامی امور کے سیکریٹری تاتیانا روسیٹو کے مطابق دنیا کے 25 ممالک اس وقت چین کے ساتھ اپنی تجارت یوان میں کر رہے ہیں۔ برازیل کی جانب سے تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے یو ان کو غیر ملکی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کے فیصلے کے بعد ہی اس کے پڑوسی ارجنٹائن نے بھی چین کے ساتھ تجارت میں ڈالر کے بجائے یو آن کو استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے آئی ایم ایف یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی نیت سے ایک ایشیائی مالیاتی فنڈ قائم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس میں ملائشیا جیسے کچھ ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ ملائشیا کے وزیر اعظم نے حال ہی میں پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا ۔مارچ میں سعودی عرب نے پہلی بار کہا تھا کہ وہ اپنا خام تیل ڈالر کے علاوہ غیر ملکی کرنسیوں میں سے فروخت کرنے کے لیے بات کر سکتا۔ وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی ادائیگی کے لیے چینی یوآن قبول کرنے کے لیے چین کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ گزشتہ سال ایران نے کہا تھا کہ اس نے روس کے ساتھ تجارت کے لیے امریکی ڈالر ترک کر دیا ہے اور اب تمام لین دین روسی روبل میں ہوگا۔ ایران نے یہ بھی کہا تھا کہ انڈیا ، ترکی اور چین کے ساتھ مستقبل میں تجارت کے لیے اس کا بھی ارادہ ہے ۔ چین کے مرکزی بینک نے گزشتہ ایک سال کے دوران یوآن کو نسی کو پاس کرانے کے لیے 29 ممالک کے بینکوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں، اگر ہم چین کی معیشت کی بات کریں تو آج تک چین نے عالمی منڈیوں میں گراوٹ کووڈ کے بعد منفی اثر اور مہنگائی میں اضافے کے باوجود اپنی جی ڈی پی یا مجموعی گھریلو پیداوار میں ریکارڈ ترقی کی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چین کی کرنسی یا یوآن، عالمی تجارت کا صرف تین فیصد ہے جبکہ87فیصد حصہ ابھی بھی امریکی ڈالر کا ہے ۔ یونیورسٹی آف میسا چوسٹس میں معاشیات کی پروفیسر جیانی گھوس کا خیال ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے غلبہ سے پہلے ضروری ہے کہ ترقی پزیر ممالک کی معیشت کو بہتر بنایا جاسکے اور سری لنکا کے حالیہ بحران جیسے حالات سے بچا جاسکے ،بصورت دیگر ڈالر یا یوآن بیرونی ممالک اور بڑے کاروبار اپنی سرمایہ کاری واپس لینے میں جلدی کریں گے ۔ ڈالر کے مقابلے یو ان کے لیے شفافیت بھی بڑا چیلنج ہوگا۔کیونکہ آج بھی چین کی معیشت میں بہت بڑے فیصلے متفقہ طور پر نہیں کیے جاتے۔ اس طرح روس کی معیشت پر بھی کچھ الزامات لگائے گئے ہیں کیونکہ دوسرے ممالک کو ڈالر کے بجائے کسی اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بنانے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس ملک کی کرنسی طویل عرصے تک قابل اعتماد رہ سکے گی یا نہیں؟ معروف ماہر اقتصادیات پال کرگمین کے خیال میں بہت سے ممالک امریکی ڈالر سے آگے کی دنیا کو آزمانا چاہیں گے لیکن متبادل بنانے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ برسوں میں امریکی ڈالر کی ساکھ میں قدرے کمی آئی ہے۔ اس کے برعکس چین کی بڑھتی تجارت اور امپورٹ ایکسپورٹ کے پھیلاؤ میں دوسرے ممالک کے سامنے اب کم از کم ایک آپشن ابھر رہا ہے بہت کچھ اس بات پر بھی منحصر ہوگا کہ یو ان کو غیر ملکی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے والے ممالک مستقبل میں چین سے کسی طرح تعلق رکھنا جائیں گے ۔کیا چینی کرنسی یو آن عالمی منڈی میںامریکی ڈالر کو نگل سکے گی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔