... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان تحریک انصاف کا بلّا بھی چھین لیا گیا۔ پارٹی بھی تقریباً تحلیل کردی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کے مقدمے میں حامد خان ایڈوکیٹ سے یہ سوال بھی کردیا کہ آپ تو طویل عرصے سے پارٹی میں ہیں۔ بزرگ رہنما ہیں ۔پارٹی کے چیئرمین کیوں نامزد نہیں ہوئے؟ اس سماعت کے دوران پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کے گھر چھاپہ بھی ماراگیا۔ ان کے بچوں اور بیوی کوبھی ماراگیا۔ اب ایک کوشش کی جا رہی ہے کہ اندرونی اختلافات کو ہوا دیکر ایسے گروہ کو پارٹی پر حاوی کردیا جائے جس سے بعض حلقوں کو ہر قسم کی تابعداری کی توقع ہو۔
پاکستان تحریک انصاف ریاستی مشینری کی پابندیوں اور رکاوٹوں کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے اور ہر حملے کے بعدپی ٹی آئی کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اپنے دور اقتدار سے اب تک مسلسل الیکشن کمیشن پر جانب داری اور اس کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایت کرتی رہی ہے۔ پارٹی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں خود عمران خان نے ایک مضمون تحریر کیاتھا جو دنیا کے انتہائی موقر جریدے ”دی اکنامسٹ ”میں شائع ہوا جس کی رسائی اور اثر دنیا کے طاقتور حکمرانوں ،بڑی کارپوریشنوں اور مالیاتی اداروں تک ہے۔ اب اس سے ملتی جلتی رپورٹ دی ٹائمز میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ عمران خان نے اپنے مضمون میں خود پر دو سو کے قریب مقدمات، قاتلانہ حملے کارکنوں کی گرفتاریوں ان کے اجتماعات میں رکاوٹیں ، آئین میں دی جانے والی مقررہ مدّت میں انتخابات کے انعقاد کی خلاف ورزی کا ذکر کیا تھا۔ جب سے تحریک انصاف کا بلّا چھینا گیا ہے تحریک انصاف نے اپنی کسی قدر خاموش انتخابی مہم میں تیزی اور جدّت پیدا کرکے بلاّ چھیننے کو بھی اپنی طاقت بنالیا ہے اور سب کو یقین دلادیا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ بد ترین ناانصافی ،ظلم وجبرکا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہر جماعت کے پاس ایک انتخابی نشان ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس علیحدہ علیحدہ نشان ہے۔ اس کے امیدواروں کے کاغذات چھینے گئے مسترد کیے گئے اور انہیں متعلقہ ہائی کورٹ کے ذریعے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا انتہائی مشکل حالات سے گزر کرجانے کے بعد جزوی موقع ملا۔ کیونکہ کئی اہم امیدواروں کو اس عمل سے باہر کردیا گیا جس میں صنم جاویداور اعظم سواتی شامل ہیں ۔بلّا واپس لیے جانے کے فیصلے پر دنیابھر میں تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف اب ببانگ دہل کہہ رہی ہے کہ عمران خان نے جو مضمون تحریر کیا تھا،دنیا کی نظروں میں اس فیصلے نے اس مضمون کی تصدیق کردی ہے۔ اب انتخابات کے نتائج جو بھی ہونگے وہ متنازع ہی رہیں گے۔ انتخابات کے بعد بھی طویل مدّت تک انتخابات کی چوری زبان زد عام ہوگی ۔ایسالگتا ہے اقلیت کو اکثریت پر مسلّط کرنے کی صورت میں جیتنے والے بھی ہارے ہوئے کہلائیں گے۔ تما م تر دبائو کے باوجود پی ٹی آئی اس وقت میدان میں آگئی ہے۔ اس نے انتخابات کے بائیکاٹ سے انکا رکردیا ہے۔ وہ ووٹروں سے اپیل کررہی ہے کہ اس انتخابات میں لوگوں کو غلامی سے نکلنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔وہ اپنے آزاد امیدواروں کی حمایت کررہی ہے جن کو انتہائی عجیب نشانات دیے گئے ہیں لیکن اس نے اس کو بھی اپنی طاقت بنا کر اس پر گانے بنا کر نشانات کو مختلف نئے انداز پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر کے انتخابی مہم کوانوکھا رنگ دے دیا جس کی وجہ سے ہر حلقے میں نئے نشانات بھی مقبول ہورہے ہیں۔پی ٹی آئی کی مہم میں تیزی کی ایک وجہ مسلم لیگ ن اور پی پی کے نچلی سطح کے بعض مایوس کارکنوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت بھی ہے، خود عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے بھی ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ ان کا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد ان کے لیے مزید ہمدردیاں پیدا ہوگئی ہے اور پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنوں میں غصے کی لہر بڑھ گئی ہے۔ اس غصے کی دوسری وجہ اپنے پارٹی جلسوں سے محرومی ہے جواباً انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے ۔وہ اس کی تربیت بھی حاصل کررہے ہیں اور ا س میں نئے رنگوں کی آمیزش کر رہے ہیں۔یہ وہ کام ہے جو نچلی سطح پر مختلف حلقوں میں شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے مرکزی سطح پر آن لائن جلسوں کا بھی اہتمام کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مہم چلانے نت نئے طریقوں کی ایجاد نے ان کے مخالفین کو پریشان کردیا ہے کہ آخر کس طرح اس قدر جبر کے باوجود پی ٹی آئی میدان میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اب بھی عمران خان اور ان کی جماعت مختلف سروے میں بلّا چھن جانے کے بعد بھی آزاد امیدواروں کے ساتھ کیوں جیت رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ گزشتہ حکومت ہے جس میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،اور جمعیت علمائے اسلام ف شامل تھی اس حکومت سے لوگوں کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس حکومت میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا،پیٹرول اور گیس کی قیمت بڑھ گئی بجلی کے بل عذاب بن گئے غربت اور بے روزگاری بھی مسلسل بڑھتی رہی لوگوں کے لیے صحت اور صفائی کی سہولیات میں کمی ہوئی حکومتی عہدیداروں کو ہر قسم کی مراعات اور سہولیات تھیں مالی بدعنوانیوں کے الزامات بھی سامنے آئے جس کی وجہ سے خود ان جماعتوں کے حامی اور کارکن بھی مایوس ہوئے اور وہ انتخابی مہم سے علیحدہ ہوگئے ہیں یا پی ٹی آئی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔
پی ٹی آئی کا حقیقی آزادی کانعرہ عوام میں مقبول ہورہا ہے۔ پی ٹی آئی کی مہم میں اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ قوم کے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دینا ہوگا۔ وہ یہ بھی نعرہ لگا رہی ہے کہ امیروں اور مراعات یافتہ لوگوں کے بچوں کے لیے علیحدہ تعلیمی نظام ہے۔ ان کے لیے مہنگے انگریزی اسکول ہیں ۔امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوںمیں بھی وہی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک ملک میں دو قانون ہیں۔ امیروں کی دنیا علیحدہ ہے۔ ان کے لیے بہترین علاج ہے جبکہ پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں صحت کارڈ متعارف کراکے ہر شخص کی جیب میں دس لاکھ روپے مالیت کی سہولت فراہم کردی تھی جسے ن لیگ ،پی پی اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت نے ختم کردیا محتاج خانے ختم ہوگئے لنگر خا نے ختم ہوگئے روزگار اسکیمیں ختم ہوگئیں عوام کی مشکلات میں بے حد اضافہ ہوگیا۔ یہ عمران خان کی جماعت کا وہ موقف ہے جو عوام میں اس کو مسلسل مقبول کر رہا ہے اور سابقہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو زوال کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ حکومت کی وہ جبر کی کارروائیاں بھی ہیں جو پی ٹی آئی کے اجتماعات کو روکنے ٹی وی پر ان کے بیانات اورتصاویر پر پابندیاں ہیں جس کی وجہ سے لوگ سوشل میڈیا کی جانب راغب ہوئے اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر موثر مہم بھی ان کی جماعت کی مقبولیت میں تیزی سے اضا فہ کر رہی ہے۔ اب بھی عمران خان بغیر اپنی جماعت کے انتخابی نشان کے ایسا مقابلہ کر رہا ہے کہ مخالفین پریشان ہیں۔ ان کا ہر وار خود ان کو نقصان پہنچارہا ہے۔ لوگ کھلا مقابلہ پسند کرتے ہیں اگر کسی کے ہاتھ پائو ںباند ھ کر میدان میں لایاجائے تو لو گ ایسے مقابلے کو کیسے کہیں گے، یہ بے ایمانی نہیں ہے اس کے باوجود ہاتھ پائوں بندھا ہواکھلاڑی زوردار مقابلہ کرے گا تو لوگ اس کو داد کیوں نہیں دیں گے؟ پی ٹی آئی بے جا دبائو سے عروج پارہی ہے۔ بلّا چھیننے کا بہت زیادہ منفی اثر ہوا تو کیا انتخابات ہونگے بھی یا نہیں ؟