... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ملکی سیاست میں ضلع گجرات کا ایک منفرد مقام ہے۔ اِس ضلع کے سپوت صدر ِ مملکت،وزیراعظم ،وزیراعلیٰ اورا سپیکر جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ضلع ملکی سیاست کا رُخ تبدیل کرنے پر قادرہے توبے جانہ ہوگا۔ اِس ضلع کے پاس پانچ نشانِ حیدر بھی ہیں ۔یہ پورے ملک میں انوکھا اعزاز ہے۔ آج کل یہ ضلع ڈرامائی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ ضلع میں آئے روز تبدیل ہوتی سیاسی وابستگیاں دیکھ کر نہ صرف سیاسی لوگ دنگ ہیں بلکہ ووٹر بھی حیران ہیں جس سے بیانیہ بدلنے میں سیاستدانوں کو دقت پیش آرہی ہے۔ 1983کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ضلع گجرات میں انتخابی مُہم جاری ہے لیکن چودھری پرویز الٰہی سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں۔ اسی طرح وزارتِ قانون اور پھر صوبائی نگران وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والا میاں افضل حیات کا خاندان بھی سیاست سے باہر ہے ۔یہ ایسی ڈرامائی تبدیلیاں ہیں جوبہت ہی حیران کُن ہیں لیکن اہلِ گجرات کوپھربھی یقین ہے کہ ملکی سیاست میں گجرات کا جاندار کردار کم نہیں ہوسکتا۔
گجرات کی سیاست میں ہی نہیں ملکی سطح پربھی ہمیشہ چارعشروں سے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نمایاں رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین تو ناسازی طبع کی وجہ سے انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہیں جبکہ چوہدری پرویز الٰہی پابندِ سلاسل ہونے کی بناپر نہ صرف انتخابی مُہم کا حصہ نہیں بلکہ اُن کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد ہو چکے ہیں۔ اسی لیے انتخابی مُہم کچھ پھیکی سی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ چوہدری شجاعت حسین کے دونوں صاحبزادے سیاست میں سرگرم ہیں۔ علاوہ ازیں چوہدری احمد مختار اور میاں مشتاق پگانوالہ کی رحلت کا بھی کچھ اثر ہواہے۔ مگر آئے روز تبدیل ہونی والی سیاسی وابستگیوں نے سیاسی منظر نامہ کافی دلچسپ بنا دیا ہے ۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی عدم موجودگی میں چوہدری وجاہت حسین متحرک ہیں اور گجرات کی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں میں اُن کا کلیدی کردار ہے۔ عین اُس وقت جب مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مشاورت جاری تھی چوہدری شجاعت حسین اور میاں نواز شریف کسی حد تک متفق بھی ہو چکے تھے کہ چوہدری وجاہت حسین نے جرأت و دلیری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ ہم تو صرف اپنی جماعت کے انتخابی نشان ٹریکٹر پر الیکشن میں حصہ لیں گے کیونکہ ہم نے خدمت و تابعداری میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔ اِسی لیے ہمیں یقین ہے کہ جیت جائیں گے۔ اِس طرح ہمیں اپنی مقبولیت جاننے میں بھی کوئی ابہام نہیں رہے گا جس پر کئی جماعتوں کو حیرانی بھی ہوئی کہ ایسے اعتماد کا مظاہرہ کم ہی سیاستدان کرتے ہیں کیونکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے اُن کے صاحبزادے چوہدری حسین الٰہی بآسانی ممبر قومی اسمبلی بن جاتے لیکن وقت نے ثابت کردیا ہے کہ چوہدری وجاہت حسین کا فیصلہ درست تھا کیونکہ چوہدری حسین الٰہی اور چوہدری موسیٰ الٰہی نہ صرف پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی پر کُھل کر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ مہنگائی کا ذمہ دار کہتے ہیں جس سے اُن کا بیانیہ عوامی ہو گیا ہے اور لوگ اُن کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں ۔
عین ممکن ہے چوہدری وجاہت حسین کو کہا گیا ہوکہ چوہدری موسیٰ الٰہی کو این اے 62سے دستبردار کرالیں اسی لیے انھوں نے اپنے ایک بیٹے چوہدری حسین الٰہی کو بآسانی ممبر قومی اسمبلی منتخب کرانے کی بجائے جدوجہد اور مقابلہ کرتے ہوئے دونوں نشستیں جیتنے کو ترجیح دی۔ اگر میرایہ اندازہ درست ہے تو نہ صرف اِس ایک فیصلے سے چوہدری وجاہت حسین کو گجرات میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے بلکہ قوی امکان ہے کہ نہ صرف اُن کے دونوں صاحبزادے چوہدری حسین الٰہی اور چوہدری موسیٰ الٰہی بآسانی ممبران قومی اسمبلی منتخب ہو جائیں بلکہ اُن کے نامزد کیے گئے ممبران صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوتاہے تو چوہدری وجاہت حسین جنھیں گجرات کی سیاست میں تو مرکزی مقام حاصل تھاہی اب خود بغیر منتخب ہوئے قومی اور صوبائی سیاست میں بھی فیصلہ ساز کا مقام حاصل کر لیں گے اِس طرح گجرات کو ماضی کا ملکی سیاست میں حاصل اہم مقام دوبارہ مل سکتا ہے ۔
آٹھ فروری کے انتخابات کی مُہم کا سب سے پہلے آغاز گجرات میں چوہدری وجاہت حسین نے کیا جس میں چوہدری حسین الٰہی مزید تیزی لائے۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ حلیف نوابزادگان دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ اُنھیں بھی اپنی متوقع شکست کاادراک ہو گیا ہے۔ چوہدری موسیٰ الٰہی بھی اپنے حلقے میں اِس حد تک متحرک اور فعال ہوئے کہ ابتدامیںتو ایسا محسوس ہونے لگا کہ گجرات میں صرف مسلم لیگ ق متحرک ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے ٹکٹ جاری کرنے میںکافی تاخیرکردی اور کچھ ایسے فیصلے کیے جس سے مقامی سطح پر نقصان اب نوشتۂ دیوار ہے سابق وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال کو ٹکٹ سے محروم رکھنا ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے جس سے حلقہ این اے 65کے ساتھ این اے 62میں بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ اِس ایک فیصلہ سے جیت سے کوسوں دور قمر زمان کائرہ کی جیت کے آثار نظر آنے لگے ہیں کیونکہ چوہدری نصیر عباس سدھو ایک غیر سیاسی اور غیر متحرک شخصیت ہیں جن کے حلقہ کے ووٹرز سے روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ظاہرہے جماعت چاہے جتنی بھی مضبوط ہو اگر امیدوار عوامی نہیں ہو گا تو اِس کا نقصان کسی طور پورا نہیں کیا جا سکتا حلقہ این اے 65میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ چوہدری جعفر اقبال کاٹکٹ چوہدری عابدرضا نے تبدیل کرایا ہے۔ اگر وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرتے تو نہ صرف ٹکٹ تبدیل نہ ہوتا بلکہ چوہدری جعفراقبال باآسانی جیت کر جماعت کی پارلیمانی قوت میں اضافہ کرتے لیکن ہٹ دھرمی دونشستوں کوسیاسی قربان گاہ پر لے آئی ہے ۔
ایک اور ڈرامائی تبدیلی کی بات کریں تو کوٹلہ سے تین بھائی الگ الگ جماعتوں کے ٹکٹ لیکر میدان سیاست میں ہیں ۔کوٹلہ خاندان کے سربراہ سابق صوبائی مشیر چوہدری نعیم رضا مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر پی پی 28سے امیدوار ہیں جبکہ اُن کے ایک بھائی چوہدری شاہدرضا کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہے جبکہ تیسرابھائی مسلم لیگ ن کاٹکٹ لیکر میدان میں ہے ۔چوہدری وجاہت حسین اور چوہدری نعیم رضا مل کر چوہدری موسیٰ الٰہی کی جیت کے لیے سرگرم ہیں ۔گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سرائے عالمگیر سے بطور صوبائی امیدوار حصہ لینے والے راجہ اسلم نے دوسری پوزیشن لی ۔اب وہ چوہدری عابد رضا اور مسلم لیگ ن کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر پی پی 27سے امیدوار ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن نے دیرینہ رفیق ملک حنیف اعوان کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ وسیع تعلقات اور صاحبِ ثروت راجہ اسلم کی شمولیت سے یہاں مسلم لیگ ق مضبوط ہوئی ہے جبکہ چوہدری ارشد سابق ایم پی اے نے سیاسی فیصلہ کرنے میں اتنی تاخیر کردی کہ وہ اب تمام جماعتوں کے لیے غیر اہم ہو چکے ہیں۔ سیاسی نبض شناسوں کا کہنا ہے کہ یہاں نہ صرف مقابلہ دلچسپ بلکہ سخت ہوگا۔ گجرات کی سیاست میں آنے والی ڈرامائی تبدیلیوں سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کامیاب ہونے والے ممبران حکومتی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔