وجود

... loading ...

وجود

پن بجلی کے منصوبوں کو فوقیت دی جائے

بدھ 17 جنوری 2024 پن بجلی کے منصوبوں کو فوقیت دی جائے

ریاض احمدچودھری

پاکستان میں ایک تو بجلی ضرورت کے مطابق پیدا نہیں کی جا رہی، دوسرے بجلی کے منصوبے زیادہ تر درآمدی ایندھن کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف درآمدی بل بہت بڑھ گیا ہے۔ دوسرے صارفین کو بہت مہنگی بجلی مل رہی ہے جس کے بلوں کی ادائیگی عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہے بدقسمتی سے دریائوں پر ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ جو سستی بجلی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
پاکستان کو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے ساڑھے تین ارب ڈالرز مالی خلا پر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس کیلئے گذشتہ برس نومبر میں پاکستان اور کویت نے اربوں ڈالرز کی مختلف مفاہمت کی یادداشتوںپر دستخط کئے جن میں فوڈسیکورٹی، زراعت، ہائیڈل پاور، واٹر سپلائی کے منصوبے شامل ہیں ۔ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی کو تقریب میں موجود تھے۔ 1450 میگاواٹ کے غازی بروتھا ڈیم کے 30 فیصد شیئر کویت کو 80 یا 90 کروڑ ڈالر کے عوض فروخت کئے جا رہے ہیں۔ غازی بروتھا ڈیم سے سالانہ 6 ارب یونٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کی فی یونٹ لاگت صرف 1.25 روپے آتی ھے۔ یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ نیپرا کو درخواست دائر کی گئی ہے کہ غازی بروتھا ڈیم سے بجلی پیدا ہونے کی لاگت بڑھا کر 10 روپے فی یونٹ کر دی جائے تاکہ کویت کو منافع دیا جائے۔اندازہ کریں کہ غازی بروتھا کے 6 ارب یونٹ کی لاگت اس وقت ساڑھے سات ارب روپے سالانہ آتی ہے جو کویت کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بڑھ کر 60 ارب روپے سالانہ ہو جائے گی۔ اس طرح کویت سے 90 کروڑ ڈالر یعنی 250 ارب روپے کی سرمایہ کاری لینے کے عوض قوم پر سالانہ 52.5 ارب روپے کا فاضل بوجھ پڑے گا جبکہ کویت کو سالانہ 55 ارب روپے سے زیادہ کا منافع دینا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں ہم صرف 5 سال میں کویت کو اس کی سرمایہ کاری سے زائد منافع دینے کے بعد بھی اس کی سرمایہ کاری کے بوجھ تلے دبے رہیں گے اس طرح کی بیرونی سرمایہ کاری دوسرے لفظوں میں آئی پی پیز کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کو مہنگی بجلی مل رہی ہے۔عوام مطالبہ کرتی ہے کہ ملکی سرمایہ کاروں کو آبی اور قومی ترقیاتی منصوبوں میں ایمنسٹی دے کر سکوک بانڈز یا شیئر فروخت کیے جائیں تو سرمایہ پاکستان میں ہی رہے گا بلکہ مہنگی بجلی سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔
بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے سرمایہ کاروں نے سولر اور ونڈ پاور پلانٹ کے 13 منصوبوں کی منظوری کیلئے آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں کہا کہ بیوروکریسی کی رکاوٹ کے باعث 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، منصوبوں سے 600 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔خط میں کہا گیا ایس آئی ایف سی کے تحت منصوبوں کی منظوری دی جائے۔ ایس آئی ایف سی سے بیوروکریسی کے عمل دخل کو ختم کیا جائے۔بجلی کے منصوبوں سے 12 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ونڈ پاور پلانٹ کے چھ منصوبے سندھ میں بنیں گے جو التواء کا شکار ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سولر پاور پلانٹ کے تین، تین منصوبے التواء کا شکار ہیں۔ پنچاب میں سولر پاور پلانٹ کا ایک منصوبہ التواء کا شکار ہے۔ منصوبوں کی تمام سٹیڈیز، گرڈز اور جنریشن لائسنس منظور ہو چکے ہیں۔ اب کوڑا کرکٹ سے بھی بجلی تیار ہونے لگی ہے۔ کوڑے سے بجلی کی پیداواری لاگت میں 50فیصد سے زیادہ کمی آئے گی جو پاکستان میں نہ صرف صنعتی پیداوار بڑھانے بلکہ عام آدمی کی سہولت کیلئے بہت ضروری ہے۔ ملک میں کوڑا کرکٹ وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ لاہور اور کراچی تو کوڑے کے حساب سے دنیا کے سب سے گندے شہر شمار ہوتے ہیں لیکن دوسرے شہر بھی اس معاملے میں ہمیشہ سے خودکفیل ہیں۔ اسے ٹھکانے لگانے کیلئے ویسٹ مینجمنٹ پر کثیر رقم صرف ہوتی ہے۔ کوڑا ضائع کرنے کی بجائے اسے بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے تو نہ صرف اسے تلف کرنے کے اخراجات بچیں گے بلکہ صنعتی اور گھریلو استعمال کیلئے سستی بجلی بھی ملے گی۔ پنجاب میں کوڑے سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی منظوری ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ دوسرے صوبوں کو بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سے گندے شہر اور علاقوں میں صفائی ستھرائی کا نظام بہتر ہو گا بلکہ توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر