... loading ...
ریاض احمدچودھری
عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے پر سماعت شروع ہو گئی ہے۔جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے اقدامات ‘نسل کشی کے مترادف’ ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے سینکڑوں جنگجو غزہ سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی ردعمل کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 23000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں ان میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست میں پیش کیے گئے دلائل کے مطابق، زیر بحث قتل و غارت گری کی کارروائیوں میں فلسطینیوں کو قتل کرنا، شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچانا، اور جان بوجھ کرایسے حالات پیدا کرنا شامل ہیں جن کا مقصد ‘ایک گروہ کے طور پر ان کی جسمانی تباہی کو حاصل کرنا’ ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے عوامی بیانات ہیں جن میں تباہی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
مقدمے میں غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ہنگامی طور پر معطل کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے۔ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تباہ کرنے والے حالات پیدا کر کے نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاشم نے عدالت میں کہا کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی پر فضا، زمین اور سمندر سے اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں لوگوں کے گھر اور اہم تنصیبات تباہ ہو گئی ہیں۔ غزہ کے فلسطینیوں کو ہر جگہ بے رحمانہ بم باری کا سامنا ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا ہے۔ حملوں میں 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور معذور ہو گئے ہیں۔ اسرائیل نے بھوک اور بیماری کے نتیجے میں موت کے خطرے سے دوچار لوگوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی بھی روک رکھی ہے۔ متواتر بم باری کے باعث ان لوگوں تک مدد پہنچانا ممکن نہیں رہا۔عدیلہ ہاشم نے کہا کہ لوگوں کو ان گھروں، پناہ گاہوں، ہسپتالوں، سکولوں، مساجد، گرجا گھروں میں اور خوراک و پانی ڈھونڈنے کی کوشش میں ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ انخلا کے احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہیں تو انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے، اگر وہ اسرائیل کی طے کردہ محفوظ راہداریوں کے ذریعے نقل مکانی کریں تو تب بھی ان کے لیے سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں۔
جنوبی افریقہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی عسکری کارروائی کے پہلے ہفتے میں 6,000 بم برسائے گئے۔ اس میں غزہ کے جنوبی علاقوں میں کم از کم 200 موقع پر 2,000 پاؤنڈ سے زیادہ وزنی بم بھی گرائے گئے جبکہ ان جگہوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے ہی حملے شمالی میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی کیے گئے۔جنوبی افریقہ کی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات انسداد نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے اس کنونشن کی منظوری دی تھی۔ پاکستان نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق قانونی موقف کا انتظار ہے۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب عثمان جدون نے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں غزہ نسل کشی کیس کی حمایت کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔مالدیپ اور نمیبیا نے بھی آئی سی جے میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی حمایت کی ہے۔
جنوبی افریقہ چاہتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو غزہ کے اندر اور اس کے خلاف تمام عسکری کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا حکم دے۔ لیکن یہ عملی طور پر یقینی ہے کہ اسرائیل اس طرح کے حکم کو نظر انداز کرے گا اور اس کی تعمیل بھی نہیں کروائی جا سکے گی۔کہنے کو تو عالمی عدالت انصاف کے فریقین عدالت کے فیصلوں پر قانونی طور پر پابند ہیں لیکن عملی طور پر انھیں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور جنوبی افریقہ آئی سی جے کے رکن ہیں۔2022 میں عدالت نے روس کو حکم دیا تھا کہ وہ یوکرین میں ‘ فوری طور پر فوجی آپریشن کو معطل کرے’ لیکن اس حکم کو نظر انداز کیا گیا۔اسرائیل نے مقدمے میں اپنے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار حماس کو قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے اپنا حق دفاع استعمال کیا۔ حماس اسپتالوں اور دیگر شہری مقامات کو استعمال کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں عالمی قوانین کے مطابق ہیں۔اسرائیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ غزہ میں نسل کشی نہیں کی جارہی۔جنوبی افریقا مکمل کہانی نہیں سنا رہا، اسرائیل حماس کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
مسلم ممالک کو باور ہونا چاہیے کہ یہ جنگ جس طرح سے لبنان اور شام تک چلی گئی ہے، اسرائیل کسی اور مسلم ملک کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ جنگ کا دائرہ کار یونہی توسیع پذیر ہوتا رہا تو یہ جنگ مشرق وسطیٰ تک ہی محدود نہیں رہے گی، اس کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔اسرائیل کا ہاتھ نہ روکا گیا تو اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ اس کا ادراک ان ممالک کو بھی ہونا چاہیے جو اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی کرتے ہیں۔ کیا صرف اسرائیل کی انا کی تسکین کی خاطر کروڑوں لوگوں کو خاک اور خون میں ملنے دیا جائے۔ مسلم امہ کو خصوصی طور پر جاگنا ہوگا اور اقوام متحدہ کو بھی انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قراردادوں پر عمل کروانے کی طرف آنا چاہیے ورنہ اس کا حشر بھی اپنی پیشرو انجمنِ اقوام یا لیگ آف نیشن جیسا ہی ہوگا۔