وجود

... loading ...

وجود

ملک کا سیاسی منظر نامہ

جمعه 12 جنوری 2024 ملک کا سیاسی منظر نامہ

ڈاکٹر سلیم خان

وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو سے قبل اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ فی الحال ملک میں ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے ۔ اس منظر نامہ کی قریب ترین مشابہت اندرا گاندھی کے ذریعہ نافذ کردہ ایمرجنسی سے ہو نی چاہیے ۔25 اور 26 جون 1975کی درمیانی شب میں اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد نے ایمرجنسی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے اور اگلی صبح وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آل انڈیا ریڈیو پر ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے ساتھ بیشتر انسانی حقوق سلب کرلیے گئے ۔ اس دھاندلی کوانتظامیہ کی کسلمندی کو دور کرنے اور بدعنوانی کے خاتمہ جیسے لنگڑے لولے جواز سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی حالانکہ بچہ بچہ جانتا تھا کہ اگر الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ اندرا گاندھی کے خلاف نہیں آتا تو اس طرح کی حماقت کا ارتکاب کبھی نہ کرتیں جس سے آگے چل کر انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تمام گمراہ کن دعووں کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے اقتدار بچانے کے لیے وہ ایمرجنسی لگائی تھی اور موجودہ وزیر اعظم نے بھی اپنی جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے اس مقصد بھی صرف اور صرف اپنی کرسی کو محفوظ رکھنا ہے ۔ اس لیے کہ الہ باد ہائی کورٹ نے ان کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
موجودہ ایمرجنسی سے مایوس ہونے والوں کو سابقہ ایمرجنسی کی تاریخ سے سبق لینا چاہیے ۔ دو سال کی ایمرجنسی کے بعد اندرا گاندھی نے 18 جنوری 1977کو اچانک دو ماہ بعد ایوانِ پارلیمان کے انتخابات کا اعلان کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا تھا جیل سے نکلنے والے پریشان حال سیاسی رہنما اور منتشر حزب اختلاف وسائل سے لیس اندراگاندھی کے سا منے بہ آسانی پسپا ہوجائے گا لیکن موقع کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام ہی نظریات کے حاملین اپنے سارے اختلافات کو مٹاکر حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے ۔ یہ حسنِ اتفاق تھا جنتا پارٹی کے ساتھ اشتراکی بھی تھے سنگھ پریوار بھی تھا ۔ جماعتِ اسلامی ہند کی بھی اسے حمایت حاصل تھی اور شاہی امام بھی اس تحریک میں پیش پیش تھے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک نہایت ہی کمزور نظر آنے والی نوزائیدہ جماعت نے وزیر اعظم مودی سے کہیں زیادہ طاقتور اندراگاندھی کے اقتدار کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ 16 مارچ 1977 کو منعقد ہونے والے انتخاب میں خود اندرا گاندھی اپنے ولیعہد بیٹے سنجے کے ساتھ الیکشن ہار گئیں ۔اس کے بعد 21 مارچ کو ایمرجنسی ختم ہوگئی۔
1977کے یہ چونکانے والے انتخابی نتائج دراصل ایمرجنسی سے ‘ناراضگی’ سے پیدا ہونے والی’ جنتا لہر’ کا نتیجہ تھا۔ اس نے نہ صرف کانگریس کا صفایا کر دیا بلکہ تین دہائی سے ملک پر حکومت کر نے والی پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا ۔25 جون 1975 سے 21 مارچ 1977 کے درمیان ایمرجنسی کے دوران شہری حقوق کو ختم کئے جانے کے خلاف لوک نائک جے پرکاش نارائن کی قیادت میں اٹھے طوفان میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا اور کانگریس کو عام انتخابات میں پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سچ تو یہ ہے جنتا لہر پہلے چلی اور جنتا پارٹی انتخابات کے بعدعالمِ وجود میں آئی۔ تکنیکی طور سے بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا گیا تھا ۔اندرا گاندھی کو عدالت میں شکست فاش سے دوچار کرنے والے راج نارائن نے اندرا گاندھی پشتینی سیٹ رائے بریلی میں انہیں پہلی بار شکست سے دے دی ۔ لوک دل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے راج نارائن ایک لاکھ 77 ہزار 719 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ مسز گاندھی 122512 ووٹ لاکر الیکشن ہار گئیں ۔ یہی حال اندرا گاندھی چشم و چراغ سنجے گاندھی کاہوا جو امیٹھی میں شکست کھا گئے اور آگے چل کر وزیر اعظم بننے کا ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
ایمرجنسی کے خلاف کشمکش نے ایک ایسی نئی قیادت کو جنم دیا جس نے نہ صرف قومی سیاست کو متاثر کیا بلکہ وہ لوگ اقتدار کی چوٹی پر بھی پہنچے۔ان میں چودھری چرن سنگھ اورشیکھر تو وزیر اعظم بھی بنے ۔ اس کے علاوہ مرکزی وزراء کی تو بہت لمبی قطار تھی مثلاً لالو پرساد، چندر ، رام ولاس پاسوان، مدھولمیے ، جارج فرناڈیز ، کرپوری ٹھاکر، مرلی منوہر جوشی، رام مورتی، جنیشور مسر وغیرہ ۔ چونکانے والی بات یہ رہی کہ مستقبل کی سیاست کی شناخت میں ماہر مانے جانے والے جگ جیون رام اور ہیموتی نندن بہوگنا نے لوک دل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور کامیاب ہوگئے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ نئی اور دلیر قیادت سکون کی حالت میں نہیں بلکہ اضطراب کی کیفیت میں جنم لیتی ہے ۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بھی یہی ہوا تھا اور دوسری بار ملک کے لوگ جبر واستبداد کے خلاف میدان میں اترے تو اسی کا اعادہ ہوا۔ اس وقت پورے ملک میں نعرہ گونج رہا تھا ‘سنگھاسن کو خالی کرو اب جنتا آئی ہے ‘ اور اندرا گاندھی کو اس کے آگے جھکنا پڑا۔چھٹے لوک سبھا الیکشن کے جملہ 542 سیٹوں میں سے کانگریس نے 492 سیٹ پر الیکشن لڑا تھا جبکہ کانگریس (او) 19، سی پی آئی 91، سی پی ایم 53 اور لوک دل نے 405 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے ۔اس الیکشن میں لوک دل کو کل 41.32 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس کے سب سے زیادہ 295 امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ کانگریس کو 34.52 فیصد ووٹ ملے اور اس کے 154 امیدوار انتخابات جیتے تھے ۔ سی پی آئی کا پہلے کے مقابلے میں ووٹ فیصد کم ہوا تھا اور اس کے سات امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے . سی پی ایم کی پوزیشن ووٹ فیصد کے حساب سے پہلے مستحکم ہوئی تھی اور اسے 4.29 فیصد ووٹ ملے اور اس کے 22 امیدوار لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب رہے تھے ۔ کانگریس (او) کو 1.72 فیصد ووٹ ملا اور اسے تین سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ریاستی سطح کی پارٹیوں کو 8.80 فیصد ووٹ ملے اور وہ 49 مقامات پر منتخب ہوئے جبکہ آزاد امیدوار نے 5.50 فیصد ووٹ لاکر نو سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔یہ ملک کا ایک تاریخی انتخاب تھا اور اب اس اسے دوہرانے کا وقت آگیا ہے ۔مذکورہ بالا اعدادو شمار گوہی دیتے ہیں کہ جب تبدیلی کی آندھی آتی ہے تو کس طرح بظاہر مضبوط نظر آنے والے خیمے کی طنابیں اکھڑ جاتی ہیں۔
ملک کا سیاسی جسد فی الحال بیمار ہے ۔ اس حقیقت کا اعتراف سارے نظریات کے حاملین کرتے ہیں لیکن علاج کے تعلق سے ان میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلاف یونہی نہیں ہے بلکہ ا س کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں۔ پہلا سبب مرض کی تشخیص کے حوالے سے ہے ۔ عام طور
پیچیدہ بیماریاں مختلف علامات کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہیں ۔ ناتجربہ کار ڈاکٹر ان علامات کو بیماری سمجھ لیتا ہے اور اپنی ساری توجہات ان کو قابو میں کرنے پر مرکوز کردیتا ہے ۔ اس طرح علاج کے باوجود اندر ہی اندر ‘مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘ والی کیفیت رونما ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ساری دوائیاں بے اثر ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامات بھی توجہ کی مستحق ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے بھی کچھ دوائی دینی پڑتی ہے لیکن اول تو انہیں کو سب کچھ سمجھ لینا اور دوم ان کو قابو میں کرنے کی خاطر اصل بیماری کو بڑھانے والی دوا کا استعمال کرنا خسارے کا سودہ ہے ۔
وطن عزیز کے سیاسی منظر نامہ میں انتشارکی سب سے بنیادی وجہ جڑ کو بھول کر شاخوں پر پتیوں کی تراش خراش پر اپنی ساری توانائی صرف کردیناہے ۔ اصل مرض کو نظر انداز کردینے سے وہ تندرست و توانا ہوکر مریض کو کمزور و نحیف کردیتاہے ۔آگے بڑھنے سے قبل اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ کسی فرد یا انسانی سماج پربیک وقت کئی امراض کا حملہ ہوسکتا ہے ۔ ماہر حکیم یہ دیکھتا ہے کہ ان سارے امراض میں سب سے خطرناک بیماری کون سی ہے اور اس کے علاج کو اولیت دیتا ہے ۔ درمیان میں اگر کوئی چھوٹی موٹی بیماری بہت زیادہ ابھر جائے تو عارضی طور پر اس کاخیال کرنے کے بعد پھر سے بڑے مرض کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے ۔ حالیہ سیاسی منظر نامہ کو سمجھنے اور بدلنے کے لیے اس پہلو سے صرفِ نظر سمِ قاتل ہے ۔
ملک کے موجودہ سیاسی منظر پر بحث و مباحثے کا مقصدبھی واضح رہنا چاہیے ۔ان کو بیان کرنے کا مقصد اگر اپنی علمی فوقیت جھاڑ کر مخاطبین کو مرعوب کرنا ہوتو یہ بے فائدہ سعی ہے ۔ اس کے ذریعہ عوام کو ڈرا کر اپنا کوئی ذاتی یا تنظیمی فائدہ حاصل کرنا نہایت مضر فعل ہے ۔ یہ اگر اخلاص کے ساتھ کی جانے والی محض علمی اور تحقیقی مشق ہو تو اس کے فوائد بہت محدود ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ اگر اس میں گفت و شنید کے پسِ پشت مثبت تبدیلی لانے کا داعیہ موجود نہ ہو تو یہ ساری بحث بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے ۔ اس لیے اصلاحِ حال سے بے نیاز ہوکر اس موضوع پرکلام و قلم کی ساری محنت ایک لایعنی کوشش پر وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ اس دورِ پر فتن میں وہ نفوس مبارکباد کے مستحق ہیں جو اخلاص کے ساتھ اپنی دینی ذمہ داری سمجھ کرمعاشرے میں بیداری اور تبدیلی لانے کا بیڑہ اٹھائیں تاکہ فسطائیت کے اس ناسور سے سارے عوام کو باالعموم اور ملت اسلامیہ کو بالخصوص نجات مل سکے ۔ خالص رضائے الٰہی کی خاطر اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے قرآنِ حکیم میں یہ بشارت موجود ہے :”جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے ، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ”۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر