... loading ...
سمیع اللہ ملک
آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یانہ پوچھیں،آپ انہیں یہ ضروربتائیں کہ ہم فلسطین سے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ یہ انبیاکا مسکن اورسرزمین ہے۔ابوالانبیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔اسی سرزمین پرحضرت لوط علیہ السلام کوعذاب الٰہی سے نجات ملی۔حضرت داؤدعلیہ السلام کایہ مسکن اوریہیں اپناایک محراب بھی تعمیر فرمایا جوآج بھی موجودہے۔دنیاکے سب سے طاقتورحضرت سلیمان علیہ السلام اسی سرزمین پربیٹھ کرساری دنیاپرحکومت فرمایاکرتے تھے۔اسی سرزمین کے ایک شہرعسقلان میں چیونٹی کا وہ مشہور قصہ پیش آیاجس کاقرآن میں ذکرہے:یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے توایک چیونٹی نے کہااے چیونٹیو،اپنے بلوں میں گھس جاؤ،کہیں ایسانہ ہوکہ سلیمان علیہ السلام اوراس کے لشکرتمہیں کچل ڈالیں اورانہیں خبربھی نہ ہو۔
حضرت زکریاعلیہ السلام کامحراب بھی اسی شہرمیں ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہاتھاکہ اس مقدس شہرمیں داخل ہوجاؤ۔انہوں نے اس شہرکو”مقدس”شرک سے پاک ہونے اورانبیاعلیھم السلام کامسکن ہونے کی وجہ سے کہاتھا۔اس شہرمیں کئی معجزات وقوع پذیرہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کوجب یہودی قوم نے قتل کرناچاہاتواللہ تبارک و تعالی نے انہیں اسی شہرسے آسمان پراٹھالیا تھا۔ولادت کے بعدجب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاپرہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کاکھجورکے تنے کوہلادینابھی ایک معجزہ الہی ہے۔قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام کااسی زمین پرمقام سفیدمینارکے پاس تشریف لائیں گے۔پھراسی شہرکے ہی مقام ”باب لد”پرحضرت عیسی علیہ السلام مسیح دجال کوقتل کریں گے۔ فلسطین ہی ارض محشرہے، اوراسی شہرسے ہی یاجوج وماجوج کازمین میں قتال اورفسادکاکام شروع ہوگا۔اس شہرمیں وقوع پذیرہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اورجالوت کابھی ہے۔فلسطین کونمازکی فرضیت کے بعدمسلمانوں کاقبلہ اول ہونے کااعزازبھی حاصل ہے۔ہجرت کے بعدحضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوران نمازہی حکم ربی سے رسول اکرمۖکومسجداقصٰی فلسطین سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ(مکہ مکرمہ)کی طرف رخ کرنے کاحکم پہنچایاتھااورجس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیاوہ مسجدآج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔حضوراکرمۖمعراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس(فلسطین)لائے گئے جہاں رسول اکرمۖکی اقتدا میں تمام انبیا علیہم السلام نے نمازاداکی،اس طرح فلسطین ایک بارپھرانبیا کامسکن بن گیا۔سیدناابوذرکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہۖسے عرض کیاکہ زمین پرسب سے پہلی کون سی مسجدبنائی گئی؟توآپۖ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)میں نے عرض کیا کہ پھرکون سی؟(مسجد بنائی گئی تو)آپۖ نے فرمایا کہ مسجدالاقصی(یعنی بیت المقدس)میں نے پھرعرض کیاکہ ان دونوں کے درمیان کتنافاصلہ تھا؟آپۖنے فرمایاکہ چالیس برس کااورتوجہاں بھی نمازکا وقت پالے،وہیں نمازاداکرلے،پس وہ مسجدہی ہے۔
آپۖکے وصال کے بعدحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوارتداد کے فتنہ اوردیگرکئی مشکلات سے نمٹنے کیلئے عسکری اورافرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجودبھی ارض شام (فلسطین)کی طرف آپۖکاتیارکردہ لشکربھیجنابھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔اسلام کے سنہری دورفاروقی میں دنیابھرکی فتوحات کوچھوڑکرمحض فلسطین کی فتح کیلئے خودسیدناعمرکاچل کر جانااوریہاں پرجاکرنمازاداکرنااس شہرکی عظمت کواجاگرکرتاہے۔دوسری باربعینہ معراج کی رات بروزجمعہ27رجب583 ھجری کوصلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہرکادوبارہ فتح ہونابھی ایک نشانی ہے۔بیت المقدس کانام” قدس” قران سے پہلے تک ہواکرتاتھا،قرآن نازل ہواتواس کانام مسجداقصیٰ رکھاگیا۔قدس اس شہرکی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جواسے دوسرے شہروں سے ممتازکرتی ہے۔اس شہرکے حصول اوراسے رومیوں کے جبرواستبدادسے بچانے کیلئے پانچ ہزارسے زیادہ صحابہ نے جام شہادت نوش کیااورشہادت کاباب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہاہے۔یہ شہر اس طرح شہیدوں کاشہرہے۔
مسجد اقصیٰ اوربلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔جب قران پاک کی یہ آیت(والتین والزیتون وطورسینین وہذا البلدالمین )نازل ہوئی توابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلادشام کو”الزیتون”انجیرسے،بلادفلسطین کو”التین”سے اور”طورسینین”مصرکے پہاڑکوہ طورسے جہاں حضرت موسی علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیاکرتے تھے سے، استدلال کیا۔اورقرآن کی یہ آیت مبارک(ولقد تبنا فی الزبورمن بعدالذرن الرض یرثہاعبادی الصالحون)سے یہ استدلال لیاگیاکہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سرزمین کی وارث ہے۔فلسطین کی عظمت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ یہاں پرپڑھی جانے والی ہرنمازکااجر5سو گناہے۔
گزشتہ دوماہ سے غزہ فلسطین میں خون کی ہولی کھیلنے والوں سے ہرذی شعورواقف ہے لیکن امریکی نیشنل سکیورٹی کا کوآرڈینیٹرجان کربی میڈیاپرآنسوبہارہاہے۔اس کے یہ آنسو افغانستان میں11لاکھ سے زیادہ،عراق میں13لاکھ سے زیادہ،شام میں 10لاکھ سے زیادہ،لیبیامیں5لاکھ سے زیادہ اوریمن میں4لاکھ سے زیادہ افرادکی زندگیاں اجاڑنے پرنہیں مگرایک ناجائزریاست اسرائیل اوراس میں رہنے والے غاصبوں کی ممکنہ شکست پربہارہاہے۔لیکن تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کوتیارنہیں۔یادرکھیں! جب مکہ کی گلیوں میں نمازپڑھنے کی اجازت نہیں تھی اوررسول اکرمۖ قیصروکسریٰ فتح کرنے کی باتیں کررہے تھے ۔بنی اسرائیل کوبچے پیداکرنے کی اجازت نہ تھی اورموسی علیہ اسلام فرعون سے آزادی کاخواب دکھارہے تھے۔روس کی کمیونسٹ پارٹی کواپنے ملک میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی اورلندن میں تخت پلٹنے کی باتیں کرتے تھے۔مختصریہ کہ بڑے خوابوں اور آئیڈلزم کی باتیں کرنے والوں نے ہی تاریخ کارخ بدلاہے،حالات کے مطابق ڈھلنے والوں نے وقتی مفادتو شاید اٹھایاہومگرکوئی تاریخی تبدیلی ان کے بس کی بات نہیں۔عالمی سامراج کی اجارہ داری کاسورج غروب ہونے جارہاہے۔یہ اس بات پرفکرمندہیں کہ چاروں طرف سے محصورحماس کس طرح پچھلے دوماہ سے ان کامقابلہ کررہے ہیں اورآب تک اسرائیل اپنے قیدیوں کونہیں چھڑواسکا۔
بستیوں کومری روندتاکون ہے؟
ان دنوں اس زمیں پرخداکون ہے؟
بے توازن سی ہے کیوں یہ دنیابہت؟
کون محورہے اب، دائرہ کون ہے؟
روزملتی ہے بس سانحوں کی خبر
کچھ کھلے تو،پس سا نحہ کون ہے؟
جبرکی سلطنت کی حدیں ہیں کہاں؟
اس حکومت کافرماں رواکون ہے
ہم کولازم ہے اپنے کئے کی سزا
پریہ انجام سے ما وراکون ہے؟
روشنی بانٹنے کے بہا نے یہاں
آگ دہلیزپررکھ رہاکون ہے؟
جیسے میرایہ گھربھی ہواس کاہی گھر
میرے آنگن میں یوں گھومتاکون ہے؟
میری مرضی کے یہ فیصلے تونہیں
میرے سب فیصلے کررہاکون ہے؟
ہم تواپنے ہی مسکن میں ہارے ہوئے
شوق تسخیرمیں مبتلا کون ہے؟
ہم تواپنی ہی شاخوں پہ سہمے ہوئے
حد پروازسے آشنا کون ہے؟
ہم تواپنے ہی غاروں میں محودعا
اورخلاؤں سے گزرا ہواکون ہے؟
ہم تواپنے ہی سورج سے ملتے نہیں
آسما نوں سے ملنے گیاکون ہے؟
ہم توکم فہم اورناسمجھ لوگ ہیں
اپنی عیاریوں میں سواکون ہیں؟
جب بدن کے ہی گھانہ دیکھے گئے
زخم روحوں کے پھردیکھتا کون ہے؟
میرے سچ پرکیاسب نے یہ تبصرہ
سچ توسچ ہے مگربولتاکون ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔