... loading ...
امریکا سے
۔۔۔۔۔
جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوکرین پر روسی حملے نے نیٹو کو اس کی 73 سالہ تاریخ کے سب سے بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ یہ جنگ نیٹو کے رکن ممالک کی مشرقی سرحدوں پر لڑی جا رہی ہے۔ نیٹو کے کئی اتحادی ممالک کو خدشہ ہے کہ اس کے بعد روس کا اگلا ہدف وہی بنیں گے ۔ نیٹو اتحاد جس میں امریکا، برطانیا، فرانس اور جرمنی شامل ہیں ۔ مشرقی یورپ میں مزید فوجیں بھیج رہا ہے جبکہ امریکا اور برطانیہ یو کرین میں فوجیں بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی تشکیل 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔ امریکا اور کینڈا کے علاوہ 10 یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنائے گئے اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کی سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔ جنگ کے ایک فاتح کے طور پر اُبھرنے کے بعد سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی ۔اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔ جرمنی کے دارلحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور 1948ء کے وسط میں سوویت رہنما جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔ شہر میں محاذآرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ 1949 میں امریکا اور 11 دیگر ممالک برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا ، ناروے ، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدر لینڈ، پرتگال، آئس لینڈ اور ر لکسمبرگ نے ایک سیاسی اور قومی اتحاد تشکیل دیا۔ 1952ء میں ، اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ دوسری جانب 1955 ء میں سوویت روس نے نیٹو کا مقابلہ کرنے کے لیے مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک کا الگ سے فوجی اتحاد بنا لیا جسے وارسا پیکٹ (وارسا معاہدہ) کہا جاتا ہے ۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وارسا معاہدے میں شامل متعدد ممالک نے وفاداریاں بدلی ہیں اور نیٹو کے رکن بن گئے ۔ اس وقت نیٹو اتحاد میں 30 ممالک شامل ہیں۔ ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے یوکرین کو مزید فوجی امداد بھیجنے کے فیصلے سے روس اور مغرب کے درمیان براہ راست فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ امریکا میں روس کے سفیر انا طولی نے کہا ہے کہ یہ ماسکو کے لیے فوری خطرہ ہے۔ اس سے قبل امریکا نے یوکرین کو مزید 62 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ جدید امریکی ہتھیاروں سے یوکرین کو قابض روسی افواج کے خلاف لڑائی میں مدد دی جا رہی ہے ۔ یوکرین کے فوجیوں نے حالیہ دنوں میں ملک کے شمال مشرق اور جنوب میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ یوکرین کے میدان جنگ میں کئی بڑی شکستوں کا سامنا کرنے کے بعد روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے انکا ر کرتے ہوئے ہو ئے ہر ممکن طریقے سے اپنا دفاع کرنے کاعہد کیا ہے۔ ماسکو کسی بھی خطے کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر پایا ہے اور یوکرین کی فوجیں حالیہ دنوں میں کھیرسن کے علاقے میں تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں ۔انتونوف کا یہ انتباہ امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کے یوکرین کے صدر زیلینسکی کے ساتھ مزید فوجی تعاون پر تبادلہ خیال کے فوراً بعد سامنے آیا ہے ۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا روس کی جانب سے یوکرین کے علاقے کے الحاق کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا ۔ صدر بائیڈن نے یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کا عہد کیا ہے کیونکہ وہ جب تک روسی جارحیت سے اپنا دفاع کرتا ہے ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے فوجی امدادی پیکیج میں” حمار” توپ خانے کے نظام اور گولہ بارود اور بکتر بند گاڑیاں شامل ہیں۔ 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد امریکا نے کیٹو کے لئے 17 ارب ڈالر کی فوجی امداد کا وعدہ کیا۔ موجودہ صورتحال میں صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ دنیا میں سرد جنگ کے بعد پہلی بار ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے۔ امریکی صدر نے پیوٹن کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ جب روسی صدر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دیتے ہیں تو وہ مذاق نہیں کر رہے ہوتے۔ انھوں نے سویت یونین کے کیوبا میں میزائل نصب کرنے کے حوالے سے کہا کہ کیوبا میں بحران کے بعد پہلی مرتبہ میں جوہر ی تھیاروں کے استعمال کا براہ راست خطرہ ہے ۔ یوکرین پر ماسکو کے حملے کے تین روز بعد ہی پیوٹن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کو ہائی الرٹ پر رکھ دیا تھا۔ روس یوکرین پر اپنے حملے کو خصوصی فوجی آپریشن کا نام دیتے ہیں۔ ماہرین نے نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے محدود پیمانے پر جو ہر ی ہتھیاروں کا استعمال ہوگا لیکن امریکی صدر نے خبر دار کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی تباہی بڑے پیمانے پر پھیلنے کا خطرہ ہے ۔ جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ صدر پیوٹن کی یوکرین میں حکمت عملی معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن اس صورتحال سے کیسے باہر نکلیں گے ؟ پیوٹن نہ صرف اپنی پوزیشن کھو دے گا بلکہ روس کے اندر طاقت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ واضح رہے پیوٹن کئی موقعوں پر روس کی اہمیت کا دنیا کو بتاتے رہے ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ اس دنیا کا کیا فائدہ جس میں روس نہ ہو۔ پیوٹن کئی بار امریکا اور یورپی ممالک کو آگاہ کر چکے ہیں کہ وہ یوکرین کو جدیدہتھیار فراہم نہ کریں جبکہ نیٹو اور امریکا اسکے برعکس کررہا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے برسوں سے جنگوں کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ اس کھیل کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غربت سے مرنے والے ایک ارب انسان اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔مگر پانچ ممالک تھیاروں کی ریس میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے دنیا کے جو ”بلاکس” بنے ہوئے ہیں وہ آپس میں ان غریب ممالک کو اپنا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں ۔ شام، مصر، افغانستان، یمن ، کشمیر، فلسطین اور یوکرین کے اندر جنگیں اسی بنیاد پر لڑی جارہی ہیں۔ تصور کریں شام کو روس سپورٹ کر رہا ہے ،باغیوں کو امریکا، کہیں پر امریکا کہیں پر روس چین جیسے مما لک کی بالادستی ہے۔جوہری ہتھیاروں کی اس دوڑ میں شامل غریب ممالک ان بڑے ممالک کے نشانے پر ہیں۔ ان غریب ممالک کے وسائل بھی جب چاہا ایران اور عراق میں جنگ چھڑا دے۔ جب چاہا شام و مصر یا پھر یمن و کشمیر میں یا پھر افغانستان میں انارکی پھیلادی۔ اس ڈیجیٹل دور میں جنگ کوئی نہیں ہوگی بس منٹوں اور گھنٹوں میں دنیا راکھ کا ڈھیر بن جائے گی۔ دنیا کے اوپر ایٹمی ہتھیاروں کے خوفناک سائے منڈلا رہے ہیں۔ مگر کوئی بھی ملک تخفیف اسلحہ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیارنہیں ۔بلکہ کچھ ممالک تو اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کر رہے۔ دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ جوہری تھیاروں کے استعمال سے ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق روس کے پاس 6375 جوہری تھیار اور بارڈرز پر 1570 ہتھیار نصب ہیں ۔ روس نے 1949 میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور تب سے روس ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں ہے ۔
امریکا کے پاس 5800 ہتھیار ہیں۔ امریکا نے 1945ء میں پہلا ایٹمی دھا کہ کیا تھا اور سب سے پہلے ایٹم بم کا استعمال بھی امریکا کے صدر ہنری ٹرومین کے کہنے پر دوسری جنگ عظیم میں ہوا۔ 2019 ء کے بعد سے امریکا نے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی روایات ختم کر دی ہے ۔ چین کے پاس 320 جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کیونکہ چین اپنی معلومات کوصیغہ راز میں رکھتا ہے ۔ چین واحد ملک ہے جس کے پاس سب سے زیادہ فوج ہے۔ چین نے 1964 ء میں پہلا دھماکہ کیا تھا فرانس کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تعداد 280 ہے۔ فرانس نے 1960 میں ایٹمی طاقت حاصل کی، برطانیہ کے پاس 225 ایٹمی ہتھیار ہیں ، اور پہلا ایٹمی تجربہ 1952ء میں کیا۔ بھارت کے پاس 150ایٹم بم ہیں۔ بھارت نے ایٹمی صلاحیت 1974 میں حاصل کی۔ پاکستان کے پاس160 ایٹم بم ہیں۔ پاکستان نے ایٹمی دھما کے 1998 ء میں کیے ۔ شمالی کوریا کے پاس 30 سے 40 تک ایٹم بم ہیں ۔ اس نے2006ء میں یہ طاقت حاصل کی۔ اسرائیل کے پاس 90 جوہری ہتھیار ہیں۔ اسرائیل نے یہ طاقت خطے کے اندر توازن بگاڑنے کے لیے استعمال کی اور اس کے پس منظر میں عرب کے اندر جنگ اور تناؤ میں اضافہ ہوا۔ لیبیا کو ان بڑی طاقتوں نے مسمار کر کے رکھ دیا جب معمر قذافی نے ایٹمی طاقت کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے جبکہ عراق کی ایٹمی طاقت کو اسرائیل نے تباہ کیا۔ جوہر ی صلاحیت رکھنے والے ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مہلک بنا رہے ہیں ۔ڈر یہ ہے کہ اس کا استعمال دنیا کو بارود میں نہ بدل دے ، روس اور یو کرین میں جاری جنگ انتہائی خطرناک موڑ پر آچکی ہے۔ اصل میں جنگ ایک انڈسٹری ہے اس میں شامل ممالک اس کو منافع بخش پروگرام بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیںاور اس کا کوئی خاتمہ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔