... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے باعث امریکی صدر جوبائیڈن نے بھارت کے یوم جمہوریہ کا دعوت نامہ بھی ٹھکرا دیا۔ جوبائیڈن کے نئی دہلی آنے سے انکار پر مودی سرکار نے کواڈ گروپ کا اجلاس ملتوی کر دیا۔ جبکہ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے بھارت کو تشویشناک ممالک میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے ستمبر میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر جوبائیڈن کو 26 جنوری کو ہونے والی یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر مدعو کیا تھالیکن بھارتی سرکار پرکینیڈا اور امریکہ میں سکھوں کے قتل کے الزام کے بعد امریکی صدرنے بھارت کا اہم ترین دورہ منسوخ کر دیا۔یہ دوسرا موقع ہے جب کسی امریکی صدر نے یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر شرکت کی دعوت مسترد کی ہے۔ اس سے قبل 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بعض گھریلو مصروفیات کے سبب یوم جمہوریہ تقریبات میں شرکت کرنے سے منع کردیا تھا۔
امریکی صدر کی جانب سے یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپرشرکت نہ کرنے کے فیصلے نے بھارت کو مشکل حالات میں ڈال دیا ہے۔کیونکہ بھارت کو یوم جمہوریہ تقریبات کے مہمان خصوصی کے لیے کسی دوسرے رہنما کو تلاش کرنا ہو گا جب کہ اس کے انعقاد میں صرف چند دن ہی رہ گئے ہیں۔امریکہ نے گزشتہ مہینے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انڈیا کے بعض اہلکاروں نے ایک سکھ رہنما پتونت سنگھ کو قتل کرانے کی سازش کی تھی جسے امریکہ کے خفیہ ایجنٹوں نے ناکام بنا دیا۔اس سلسلے میں چیک جمہوریہ میں ایک بھارتی شہری نکھل گپتا کو گرفتار بھی کیا گیا اور اس شخص پر مقدمہ چلانے کے لیے اب اسے امریکہ لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔امریکہ کی ایک عدالت میں اس سازش کے بارے میں دائر کیے گئے مقدمے میں جو تفصیلات جمع کرائی گئی ہیں، ان سے اس شخص کا گزشتہ جون میں کینیڈا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے بھی تعلق نظر آتا ہے۔نجر کے قتل کے بعد جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی پارلیمنٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ اس قتل میں ممکنہ طور پر بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے تاہم بھارت نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
امریکہ اور کینیڈا میں کم از کم چار سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کرنے کے مبینہ منصوبے میں ایک بھارتی باشندے پر فرد جرم عائد کی ہے۔ ان الزامات کی کڑیاں اس سال کینیڈا میں سکھ کینیڈین شہری کے قتل ساتھ بھی جوڑے گئی ہیں۔چیک ریپبلک میں امریکی درخواست پر گرفتاربھارتی شہری نکھل گپتا پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا نشانہ کینیڈین دہری شہریت کے حامل گرو پتونت سنگھ پنوں تھے۔ گرو پتونت سنگھ پنوں امریکہ میں قائم سکھ علیحدگی پسند گروہ کے رکن ہیں۔
سکھ برداری بھارت میں ایک اقلیت ہے جو اس کی آبادی کا دو فیصد حصہ ہے۔ اس کے بعض گروہ ‘خالصتان’ تحریک کا حصہ ہیں جوبھارت میں الگ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں۔1980 کی دہائی میں ایک مسلح بغاوت کے ساتھ اس مطالبے نے شدت اختیار کی تھی جسے بعد میں کچل دیا گیا اور اس سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم بیرون ملک سکھ برداری کے کچھ گروہ آج بھی خالصتان تحریک کا حصہ ہیں۔کینیڈا نے بھارت پر الزام عائد کرنے کے بعد بھارتی سفارت کاروں کو ملک چھوڑ جانے کا حکم دیا تھا۔ بھارت نے بھی کینیڈا کے تقریباً 40 سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا تھا اور کینیڈا کے شہریوں کے لیے کئی ہفتے تک ویزے کا اجرا بھی بند کر دیا تھا۔لیکن جب امریکی انتظامیہ نے اپنے ایک سکھ شہری کو بھارتی سرکار کی ایما پر مبینہ طور پر قتل کرنے کی ناکام سازش کا ثبوت پیش کیا تو بھارت کا رویہ بالکل ہی نرم تھا۔ صدر بائیڈن انتظامیہ نے چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اس میں بھارت کا اہم کردار ہے لیکن امریکہ نے جو چھوٹ دے رکھی ہے وہ لامحدود نہیں۔ اگربھارت کی جانب سے مستقبل میں کچھ اسی طرح کی حرکت دوبارہ ہوئی تو رشتوں کی قربت سے جو فائدہ ہوا، وہ ختم بھی ہو سکتا ہے۔
امریکا نے ہردیپ سنگھ نجر کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی قومی سلامتی کی ترجمان کے بیان پر برطانوی حکومت کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت پر سنگین الزامات پر کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت صرف اپنے ہمسایوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود سے ہزاروں میل دور واقع ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم اداروں کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کے مذموم عزائم پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔ کینیڈا میں سکھ رہنما کو جس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا اس سے مغربی ممالک کو جھٹکا لگا ہے، اب ان کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان دہائیوں سے بھارتی دہشت گردی کا شکار ہے اور بھارت دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کی ایک واضح مثال ہے اور بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔