وجود

... loading ...

وجود

مودی سرکار کا مسلمانوں سے تعصب

جمعه 05 جنوری 2024 مودی سرکار کا مسلمانوں سے تعصب

ریاض احمدچودھری

بھارت میں ایک ارب تیس کروڑ آبادی میں بیس کروڑ مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تعصب اور نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت ہی حکمران جماعت بی جے پی کا مقصد اور زندگی ہے۔ اس وقت بھارت میں تقریبا ہر ہندوستانی، مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے یا ان سے ڈرتا ہے۔ میڈیا دن رات نریندر مودی کی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ بھارت میں ادارہ جاتی یعنی سرکاری سطح پر بھی تعصب پایا جاتا ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے یہ تعصب کھل کر سامنے آیا ہے۔ہندوستان میں فرقہ واریت اور تفرقہ انگیز پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔
بھارت میں مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیاں، مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر مظالم، مذہبی آزادی پر پابندیاں اور دن بدن بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اس بات کاثبوت ہیں کہ گاندھی کا بھارت انتہائی تیزی سے جمہوری سے ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کے دہشت گرد سرعام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے جان و مال سے کھیل رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروںجیسے کہ پولیس کی سرپرستی میں مسلمانوں کو جسمانی تشدد، امتیازی سلوک ، زبردستی نقل مکانی اور گائے کشی پر بہیمانہ طور قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندو دہشت گردوں کو معاشرے کی اکثریت کی حمایت و تعاون حاصل ہے۔ بھارتی میڈیا اور اعلیٰ عدلیہ بھی ہندو دہشت گردوں کے خوف کا شکار ہے۔ مودی سرکار نے نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں بھارت کے اندر بسنے والی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اقوام متحدہ اور عالمی برداری کی اس پر خاموشی انتہائی افسوسناک ہے۔ تجارتی مفادات کی خاطر بھارت میں جاری بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی اور دانستہ و نادانستہ طورپر مذہبی دہشت گردی و انتہا پسندی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ، بڑی طاقتوںخاص طورپر مہذب دنیا کو بھارت میں مودی سرکار کی زیر سرپرستی ہندو دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کی روک تھام کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہندوستان اسلامو فوبیا کا گڑھ بن گیا ہے اور مسلمان شدید سماجی تفریق، معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ جہاں بھارتی مسلمان شدید سماجی تفریق، معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا شکار ہیں جس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں نے بھی کیا ہے۔ کونسل فار فارن ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق 2014 ء میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور بھارت کی مجموعی آبادی کا 15 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 5 فیصد ہے جبکہ بی جے پی میں کوئی مسلمان پارلیمنٹرین ہی نہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا مغربی نگال کی 26 فیصد آبادی مسلمان لیکن پولیس میں حصہ صرف 7 فیصد ہے، آسام کی 31 فیصد آبادی مسلمان جبکہ پولیس میں صرف 10 فیصد ہیں۔ خود بھارتی ادارہ شماریات کی 2020 ء کی رپورٹ سے مسلمان مخالف اقدامات کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2 فیصد سے بھی کم مسلم خواتین کو یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے۔ آکسفیم نے مسلم طبقے کے حوالے سے معاشی ابتری کو رپورٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں مسلمانوں کا حصہ 23 فیصد سے گر کر 15 فیصد رہ گیا ہے جبکہ نجی شعبے میں مسلمانوں کی تنخواہ ہندوؤں سے 49 فیصد کم ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ملازمتی تفریق گزشتہ 16 برس میں 9 فیصد سے بڑھ کر 68 فیصد کی خوفناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ 500 بڑی بھارتی کپمنیز میں صرف 2 فیصد مسلمان اعلیٰ عہدوں پر ہیں۔ مودی سرکار یو سی سی، شہریت، گاؤ رکھشک، طلاق اور حجاب سے متعلق قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں سال 2023ء کے دوران 4 کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی لگائی۔ ان جماعتوں میں تحریک حریت جموں و کشمیر اور جموں کشمیر مسلم لیگ، دختر ان ملت اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی شامل ہے۔ دوسری طرف مودی سرکار پارلیمنٹ کو استعمال کرکے بھارتی قوانین میں بڑی تبدیلیاں لارہی ہے جسے مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم کی بدترین لہر آنے کا پیش خیمہ قرار دیا جارہا ہے۔ اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ و سینئر حریت پسند رہنما عبدالصمد انقلابی نے تحریک حریت جموں و کشمیر اور جموں کشمیر مسلم لیگ پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے اس طرح کے بھارتی ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک نہیں دبے گی۔ بی جے پی حکومت آزادی پسند تنظیموں پر پابندی سے اپنے مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گی اور وہ غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھیں گی۔
بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں جاری فوجی آپریشن میں 2023کے دوران چار خواتین اور چار کمسن لڑکوں سمیت 120بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔ ان میں سے 41کو جعلی مقابلوں اور دوران حراست شہید کیاگیا۔ بھارتی فوج ،پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شہادتوں کے نتیجے میں 18خواتین بیوہ اور 58بچے یتیم ہو گئے جبکہ اس دوران بھارتی فورسز نے 7خواتین کی بے حرمتی کی۔ بھارتی فورسز نے علاقے میں 13رہائشی مکانات اور عمارات کو تباہ کر دیا۔ طاقت کے وحشیانہ استعمال اور تشدد سے کم از کم 107 افراد زخمی ہوئے جبکہ ، کمسن لڑکوں اور خواتین سمیت 3610افرادکوگرفتار کیاہے۔ 2023ء کے دوران کم از کم 14کشمیری سرکاری ملازمین کو بی جے پی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کی حمایت کرنے پر ملازمت سے معطل یا برطرف کردیا ہے جبکہ کم از کم 72 جائیدادیں جن میں زرعی اراضی، مکان اور دکانیں شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر