وجود

... loading ...

وجود

عوام ان لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں؟

جمعرات 04 جنوری 2024 عوام ان لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں؟

نعیم صادق

ڈالر کی قلت کا شکار ہونا بہت برا ہے ۔ لیکن سوچ اورخیال سے محروم ہونا تو بد ترین ہے ۔پاکستان اپنی قیادت کے معیار کو بہتربنانے کے لیے بہت سے آئیڈیاز تلاش کر سکتا تھا۔ ووٹنگ کا اختیار فراہم کرنا ایسا ہی ایک ترقی پسند قدم ہو سکتا ہے ۔ یہ مضمون اس بات کی وضاحت کرے گا کہ عوام کو انتخابات کے لیے NOTA کا اختیار کیوں دیا جانا چاہیے ۔
ملک کی تین اہم سیاسی جماعتوں کے موجودہ رہنما آٹھ اہم خامیوں کے شکار ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کو اپنے آپشنز پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ ماضی کی ایک فرسودہ میراث کو لے کر چل رہے ہیں۔وہ اپنے آپ کو روایتی قدامت پسند نظریات، ذاتی عناد، تنگ نظری، سرکاری خرچ پر عمرہ اور سائنسی ناخواندگی سے آزاد نہیں کر سکے ۔ وہ اب بھی حلف ناموں، فوٹو کاپیوں اور گریڈ 17 کی تصدیق کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ایسی سائنسی ہنر مندی ، یا عقلمندی ، سوچ اور خیالات نہیں ہیں کہ وہ قوم کو درپیش مستقبل کے پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹ سکیں۔
دوسرا، ہمارے موجودہ امیدواروں میں سے کسی میں بھی اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی جرات اور حوصلہ نہیں ہے ۔ گزشتہ حکومتوں، دیگر جماعتوں یا اداروں پر الزام تراشی اور قربانی کا بکرا بنانے سے لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے کبھی کسی لیڈر کو آگے آتے ، اور یہ تسلیم کرتے ہوئے نہیں سنا کہ “میں ناکام ہو گیا ہوں ، میں معافی چاہتا ہوں، میں نے استعفیٰ دے دیا ہے “۔
تیسرا، ہمیں ایسے رہنماؤں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو اداروں کی تعمیر کے بجائے صرف ” اپنے ذاتی وفادار ملازموں کے ذریعے یا چندمنتخب افراد کی خوشنودی کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔ اور اس انتظام پر یقین رکھتے ہیں۔ سینئراعلیٰ سرکاری افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ ، اور صوابدیدی فنڈز کے طور پر اربوں کا خرچ رشوت سے بھرے طرز حکمرانی کی صرف دو مثالیں ہیں۔
چوتھا، یہ امر پاکستان کے لیے خود کشی کے مترادف ہو گا کہ مستقبل کا ایسا لیڈر ہو جس کے پاس افزائش آبادی کی شرح یا ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں کوئی اعداد و شمار نہ ہوں۔ کسی بھی موجودہ لیڈر نے گزشتہ ادوار میں اس مسئلے سے نہیں نمٹا ہے اور نہ ہی یہ ان کے مستقبل کے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ آبادی کے کنٹرول کے فوری اقدامات کے بغیر ، پاکستان برباد ی کے دہانے پر ہے اور موجودہ امیدوار اپنے پرانے خیالات ،عقائد اور تنگ نظری سے اس تباہی کو مزید قریب کردیں گے ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ، انہی لیڈروں کو منتخب کرنا تباہ کن ہوگا جن کی پالیسیوں اور غفلت نے 28 ملین سے زیادہ بچوں کو اسکول اور تعلیم سے محروم کردیا ہے ۔ ان کے پاس اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ کس طرح تمام بچوں کو اسکولوں میں تعلیم فراہم کی جائے ۔ موجودہ اسکولوں میں کیسے اصلاح کی جائے یا ان بچوں کی صلاحیتوں کو کیسے بڑھایا جائے ، سیکھنے کی لگن ، کام کی اخلاقیات اور تعلیم میں تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے بڑھایا جائے ۔ ہمیں ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے جو نہ تو روزانہ ملک میں پیدا ہونے والے 17 ہزار 435نئے بچوں کی آمد کی رفتار کو کم کریں گے اور نہ ہی پہلے سے موجود بچوں کے لیے اچھی تعلیم کا بندوبست کریں گے ۔
چھٹا، ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے ۔ جنہوں نے 32 ہزار روپے کی کم از کم اجرت کے مقابلے میں کراچی کی سڑکوں پر 15 ہزار روپے ماہانہ پر جھاڑو دینے والے ہزاروں صفائی کارکنوں (جن میں سے 20 فیصد بچے ہیں) کی حالت بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا؟
ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں ؟ جو دس لاکھ یا اس سے زیادہ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے مسائل پر آنکھیں بند کیئے ہوئے ہیں۔ جو دن میں 12 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ لیکن انھیں قانونی کم از کم اجرت کا ایک تہائی ادا کیا جاتا ہے ۔ عوام ان ہی لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں ؟ جنہوں نے ریلوے کے ہزاروں قلیوں کے مسائل پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ جو اپنی روزانہ کی کمائی کا ایک تہائی خون چوسنے والے ریلوے ٹھیکیداروں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانیوں کو ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے ؟ جو اشرافیہ سے عیاشی والی مراعات اور پنشن چھیننے کے بجائے ، امیروں کو نوازیں اور غریبوں کو کچل کر تفاوت کو فروغ دیں۔
ساتویں، موجودہ حکمرانوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے ، پنشن میں اصلاحات لانے ، تمام شہریوں کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے یا دستاویزی معیشت کو فعال کرنے جیسے سنجیدہ مالیاتی اقدامات کرنے کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی ، دلچسپی یا صلاحیت نہیں ہے ۔ جو کچھ بھی نیم دلی سے کیا جاتا ہے وہ بھی ڈونر ایجنسیوں کے دباؤ پر کیا جاتا ہے ۔
آخر یہ وہی لیڈر ہیں جو سرکاری محکموں میں سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ملازمین بھرتی کرتے ہیں اور سینکڑوں سینئر بیوروکریٹس کو سیاسی احسانات کے طور پر ترقی دیتے ہیں۔ ہم نے انسانی وسائل کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری محکموں کے ساتھ ہر پاکستانی سرکاری محکمے کا موازنہ کیا، ہم نے پاکستانی دفاتر اور محکموں میں کم از کم پانچ گنا زیادہ عملہ پایا۔
ایک شہری کی جانب سے حال ہی میں ‘معلومات کے حق’کی درخواست پر معلوم ہوا کہ ہماری سپریم کورٹ 16 معزز ججوں اور 687 ریگولر ملازمین کے ساتھ کام کرتی ہے ۔ اسی طرح کی ایک اور درخواست کے جواب میں جوبرطانیہ کی سپریم کورٹ کے بارے میں تھی، بتایا گیا کہ 12 ججوں کی خدمت صرف 64 باقاعدہ ملازمین کرتے ہیں۔
مقابلے میں حصہ لینے والا کوئی بھی لیڈر نہیں سمجھتا کہ ہماری بڑے جثہ والی حکومت اور بھیڑ سے بھرے محکموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیرفعالیت کس حد تک پہنچی ہوئی ہے ۔ ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس بڑے بیوروکریسی کے پہاڑ کی تنظیم نو کریں اور ایک دبلی پتلی، موثر اور ڈیجیٹل حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ پاکستانی ڈکوٹا انڈین قبائل سے NOTA کے فوائد کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، جن کا ماننا تھا کہ، “جب آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ مردہ گھوڑے پر سوار ہیں، تو بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آپ نیچے اتریں۔”
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر