وجود

... loading ...

وجود

لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی نہیں بننے دیں گے، پارلیمنٹ کوقانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

منگل 02 جنوری 2024 لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی نہیں بننے دیں گے، پارلیمنٹ کوقانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس میں وکیل شعیب شاہین کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ آپ معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے،ہم پارلیمنٹ کوقانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے،ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سماعت کی ۔لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟۔درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50سال سے لاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں، جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کئے گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، اعتزازاحسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا۔وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا، عدالت نے سوال کیاکہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں۔ وکیل نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی، شعیب شاہین نے بتایا کہ 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اعتزازاحسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں۔شعیب شاہین نے بتایا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتزاز احسن خود پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ جب کمیشن بنا وہ شاید وزیر نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن کیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔شعیب شاہین نے شیخ رشید، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنہ کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹیگری میں رکھیں گے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آ جائیں؟ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغواکیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ انکی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟۔شعیب شاہین نے کہا کہ پورا پاکستان گواہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا، یہ سب ہماری پارٹی چھوڑ گئے اسکا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔ ہم اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہتے ہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی مقاصد کے لئے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اگر آپ ہمارا مذاق اڑائیں گے تو ہم اسکی اجازت نہیں دیں گے، محمد خان بھٹی کون ہے؟ اور آپ سے کیا تعلق ہے؟۔شعیب شاہین نے بتایا کہ پہلے یہ لاپتہ تھے اب پیش کر دیئے گئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کس منہ سے یہ بات کر رہے ہیں؟ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غائب ہوگیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفیٰ دیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا، بل کیا سینیٹ سے غائب ہوا تھا؟ چیئرمین سینیٹ کون ہے کس کے ووٹ سے بنے تھے؟۔شعیب شاہین نے بتایا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے۔ شعیب شاہین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد سے وہ چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے، چیئرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کر دیا، کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟، آپ نے چیئرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا۔شعیب شاہین نے کہا کہ میں نے درخواست میں اس معاملے پر کوئی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گرائونڈ کے طور پر لکھا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے بل غائب ہونے کا ذکر کیا تو پھر صادق سنجرانی کو فریق تو بنائیں، بل اگر غائب ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے بہت بڑی سازش ہوئی، یہ کیس تو لاپتہ افراد سے لاپتہ بل کا کیس بن گیا ہے، ہمیں وہ بل دکھا تو دیں۔شعیب شاہین نے بتایا کہ وہ بل میرے پاس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے وہ بل یہاں سے پرنٹ نکلوا لیا ہے اور یہ بل تو شیخ رشید احمد کا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا، یہ کون ہے؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتہ ہے؟، کیا عمران ریاض اثر و رسوخ والے نہیں؟ کیا مطیع اللہ جان اغوا نہیں ہوئے تھے؟ آپ مطیع اللہ جان اور اسد طور کا نام شامل کیوں نہیں کرتے، آپ ان لوگوں کا نام لے رہے ہیں جو اس بات پر کھڑے ہی نہیں کہ وہ اغوا ہوئے جبکہ مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے۔شعیب شاہین نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان کے کیس میں پیش ہوا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ سب کچھ ہونے سے پہلے اس وقت نوٹس لے کر کیس چلا رہے تھے لیکن اس وقت وہ کیس نہیں چلنے دیا گیا، آپ بغیر کسی تفریق کے سب صحافیوں کے نام لکھ دیتے۔شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ میں 2023 میں بات کروں گا تو انہی کا ذکر کروں گا جن کو اٹھایا جا رہا ہے، ان کا ذکر نہیں کروں جن کو پروٹوکول مل رہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کوئی فہرست لگائی کون کب سے لاپتہ ہے؟ آپ نے کہا وزیراعظم نے جو 50 لوگوں کے گم ہونے کی بات کی وہ غلط ہے، آپ تاریخوں کے ساتھ فہرست دیتے تو ہم دیکھ لیتے تب کس کی حکومت تھی، ہو سکتا ہے اس میں آپ کی حکومت بھی آجاتی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ کون ہے؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ جاوید اقبال سے مطمئن ہیں یا تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ایک عالمی میعار کا نیا کمیشن بنے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کی حکومت نے جاوید اقبال کو تبدیل کیا؟۔شعیب شاہین نے بتایا کہ جاوید اقبال کو کسی حکومت نے تبدیل نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے؟ وکیل نے کہا کہ میں اس معاملے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا، کیس خارج کروا سکتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس اب خارج نہیں کرنے دیں گے، ہم اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں گے، شعیب شاہین نے کہا کہ انشا اللہ ہم یہی چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتی یہ بہت کر لیا، ایک وزیر اپنے بل کی حفاظت نہیں کرسکتی، لاپتہ افراد کی حفاظت کیسے کریں گی؟۔عدالت میں صادق سنجرانی کے پہلے انتخاب اور عدم اعتماد کے تذکرے بھی ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد ناکام کیسے ہوا تھا، کیا ووٹ بھی لاپتہ ہوگئے تھے، کیا یہ کیس لاپتہ افراد کا ہی ہے یا لاپتہ چیزیں بھی آ جائیں گی، بل بھی لاپتہ ہوگیا اور ووٹ بھی لاپتہ ہوگئے، آپ نے اسی وقت اپنا چیئرمین سینیٹ بھی بنوا لیا تھا۔شعیب شاہین نے کہا کہ ہمارا چیئرمین نہیں ہے جن کا ہے اللہ انہیں نصیب کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نگران حکومت کو صرف ان کے دور میں گم ہوئے لوگوں کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں، ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہتے ہیں، لاپتہ افراد میں کئی وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو جہادی تنظیموں کے ساتھ چلے جاتے ہیں، یہ بھی دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ تنظیمیں جوائن کر لو، آپ کو پتہ ہے لوگ قتل ہوئے ہیں، جج قتل ہوئے ہیں، آپ کو پتہ ہے دو عدالتوں کے چیف جسٹس رہنے والے نور محمد مسکان زئی کو قتل کیا گیا۔سماعت آج (بدھ)ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر