... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
عالم انسانیت کے ساتھ عالمِ سلام کی صورتحال بھی بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے ۔ یہ تبدیلیاں مثبت اور منفی دونوں طرح کی ہیں۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ عام طور پر وہ مثبت تبدیلی کو بہت جلد فراموش کردیتا ہے مگر منفی تبدیلیوں کو خوب یاد رکھتا ہے مثلاً ہم فلسطین کے مظالم کوبجا طور پر یاد رکھتے ہیں اور یاد رکھنا بھی چاہیے لیکن اس کے ساتھ افغانستان کی زبردست کامیابی کو بھول جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی کامیابی تھی کہ جس میں اہل اسلام نے یکے بعد دیگرے دو سُپر پاورس کو شکست فاش سے دوچار کیا اور سوویت یونین کوتو صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔اب یہ حالت ہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل پر حملے کو فلسطینی عوام کی اجتماعی سزا کا جواز بنانا قابل قبول نہیں ہے ۔ روسی وزیر خارجہ بولے کہ روس اور میں منافق نہیں ہیں اور اسرائیل پر حماس کا حملہ خلا میں نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ روس غزہ کی پٹی میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے سیاسی دباؤ جاری رکھے گا۔ اسی طرح قومی سطح پر مسلمانوں کو اس کا تو بہت افسوس ہے کہ بی جے پی نے کانگریس سے چھتیس گڑھ اور راجستھان کا اقتدار چھین لیا لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلے دنوں ہماچل پردیش اور کرناٹک میں کانگریس نے یہی بی جے پی کے ساتھ کیا تھا ۔تبدیلیوں کے اس سلسلے کو انگریزی میں The only thing constant is change کہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
قرآن مجید میں ان تبدیلیوں کے اغراض و مقاصد بڑی تفصیل کے بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ آیات غزوہ احد کے بعد دلاسے کے طور نازل کی گئیں لیکن ان کی معنویت ہر زمانے میں زندہ و تابندہ ہے ۔ تمہید کے طور پر ڈھارس بندھاتے ہوئے بلکہ حوصلہ بڑھانے کے بعد ارشادِ قرآنی ہے :دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو”۔ اس آیت میں واضح اشارہ موجود ہے کہ غزوۂ احد کی ناکامی نے مسلمانوں کو پژمردہ کردیا گیا تھا۔ اس مایوسی کی کیفیت کو دور کرنے کی خاطر ایک سال قبل بدر کے میدان میں ملنے والی کامیابی کو نہایت خوبصورت انداز میں یاد دلاتے ہوئے فرمایا : ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے ”۔ اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر اس قانونِ فطرت کی معرفت بہت مشکل ہے کہ: یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں”۔ اس حقیقت پر نبی کریم ۖ کے زمانے میں تو بدر و احد کا معرکہ بے مثال تھا مگر عصر حاضر میں فلسطین اور افغانستان کی مثالیں ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات شاہد ہیں لیکن اس سے قبل سنت الٰہی کی حکمت کا جاننا ضروری ہے ؟
قرآنِ حکیم میں مذکورہ بالا آیت کے فوراً بعد والی آیت میں یہ عقدہ اس طرح کھول دیا گیاکہ:تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں”۔ اس دیکھنے ہمیں دکھانے کا مفہوم موجود ہے کیونکہ آزمائش کے بعد ہی ایمانی کیفیت کا حقیقی اندازہ ہوپاتا ہے ورنہ بلند بانگ دعویٰ تو ہر کوئی کرسکتا ہے ۔ ایمان کی جانچ پڑتال کے بعد کا مرحلہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ :اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے ) گواہ ہوں”۔ راستی کے گواہوں چھانٹ کر الگ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے ”کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں”۔ یعنی اس امتحان میں ناکام ہونے والے بدبخت خود اپنے اوپر ظلم کا ارتکاب کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لیتے ہیں ۔ یہ تو خیر ناکام ہونے والوں کا انجام ہے لیکن کامیاب ہونے والوں کو یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ :”اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا ”۔کافروں کی سرکوبی کی سعادتکے مستحق تو آزمائش سے گزر کر اس میں سرخ رو ہونے والے ہی ہیں ۔
اس حقیقت کی سب سے بڑی مثال حماس کا موجودہ حملہ ہے ۔ 1967 کی 6 روزہ جنگ ہے میں تین مسلم ممالک مصر ، شام اوراردن نے مل کر اسرائیل پر مشترکہ حملہ کردیا تھا ۔ امریکہ کی مداخلت کے سبب 6 دن کے اندر وہ تینوں شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔حماس کی جنگ کو دو ماہ سے زیادہ ہوگئے مگر وہ ہنوز ڈٹے ہوئے ہیں۔ غزہ کے اندر اس کشمکش کے دوران جو جانی اور مالی نقصان ہوا اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ مگر اس کی کامیابیاں غیر معمولی ہیں۔ اسرائیل ساری تباہی و بربادی کے باوجود اپنے قیدیوں کو بزورِ قوت چھڑانے میں ناکام رہا ہے ۔ اس کے لیے وہ اوچھے حربے استعمال کرنے پرمجبورہے ۔ عام شہریوں کو گرفتار کرکے انہیں ہتھیار ڈالنے والے مجاہدین قرار دینے کی کذب گوئی کررہا ہے ۔ جنگ بندی کو شکست کے مترادف کہنے کے باوجود اسے عارضی طور پر سہی جنگ بندی پر راضی ہونا پڑا۔ قیدیوں کے تبادلے میں حماس کا پلڑہ بھاری تھا اور جنگ بندی کی شرائط حماس کی منظوری سے طے ہوئی تھیں۔ جنگ بندی سے قبل راکٹ چلا کر اس نے یہ ثابت کردیاکہ حماس کو ختم کرنے کا اسرائیلی دعویٰ بے بنیاد ہے اور وہ اس مقصد میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے ۔جنگ بندی کے بعد بھی حماس نے تل ابیب تک میں راکٹوں سے حملے کیے اور بعد میں بھی اس سلسلے کو جاری رکھا۔ اب یہ حالت ہے کہ خود اسرائیلی میڈیا حکومت پر فوجیوں کی موت کو چھپانے کا الزام لگا رہا ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پچھلے 81 دنوں میں اسرائیل کا جانی و مالی نقصان نسبتاً بہت کم ہوا مگر اسرائیل کے آبادکاروں میں عدم تحفظ کازبردست احساس پیدا ہوگیا جوانہیں ملک چھوڑنے پر آمادہ کررہا ہے ۔ اب تک ملک سے فرار ہونے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے نیر دس لاکھ کے تیاری میں ہونے کی قیاس آرائی کی گئی ہے ۔ یہ رجحان اسرائیل کے وجود کی خاطر سمِ قاتل ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی باہر سے آکر بسنے والوں پر ہے ۔ اسرائیل کے ناپاک وجود کی دوسری بنیاد اس کے حق میں پائی جانے والی عالمی رائے عامہ ہے لیکن اس دوران وہ جس قدر خلاف ہوئی اتنی کبھی نہیں تھی۔ اقوام متحدہ میں بارہا اس کا مظاہرہ ہوچکا ہے ۔ جنرل اسمبلی میں اس کے جملہ 179 میں سے صرف14 اس کے حامی بچے ہیں ۔ امریکہ کے اندر 75 فیصد ڈیموکریٹس اورنصف سے زیادہ ریپبلکن پارٹی کے حامی جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے اپنی حکومت سے اس کے لیے کوشش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکی استعمار خود
اپنے لوگوں کی مرضی کے خلاف جنگ بندی کی تجویز کو ویٹو کردیتا ہے ۔ اس کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے جہاں حکومت کے عوام کی مرضی کے مطابق چلنے کا کھوکھلا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ مجاہدین غزہ کے صبرو استقامت نے امریکیوں کو قرآن مجید کے مطالعہ کی جانب راغب کیا ہے اور قبول اسلام کے واقعات بھی منظرعام پر آرہے ہیں۔ جہادکے توسط سے دعوت اسلامی کی اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی۔ ایسا ٦ دن کی جنگ کے بعد نہیں ہوا تھا ۔
موجودہ کشمکش نے عالمِ اسلام کے اندر غیر معمولی اتحاد پیدا کر دیاہے ۔ اسرائیل اور مغربی طاقتیں حماس کو داعش کا ہم پلہ بناکر ساری دنیا کو اس کا مخالف بنانا چاہتی تھیں ۔ وہ اگر اس مقصد میں کامیاب ہوجاتیں تو کئی اسلامی ممالک اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے مگر انہیں اس میں ناکامی ہوئی ۔ فلسطین کے مسئلہ پر سارے مسلم ممالک متحد رہے اور انہیں چین اور روس کی حمایت حاصل ہوگئی۔ عالمی سطح پر یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔ پچھلی ایک صدی کے دوران مسلم دنیا امریکہ اور سوویت یونین کے حامیوں میں بنٹی رہی مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیل آف سنچری اور ابراہام اکارڈ کی دھجیاں اڑ گئیں۔ جس فلسطین کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی وہ دنیا کا اہم ترین مسئلہ بن کر سامنے آگیا۔مسلم حکمرانوں سے علی الرغم عوام کی ہمدردیاں فلسطین کے ساتھ ہیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ ان کے حکمراں اس آیت پر عمل کریں جس میں کہا گیا ہے :آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے ”۔
مسلم ممالک غالباً اس لیے ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں کیونکہ انہیں تیسری عالمی جنگ کے چھڑ جانے کا خوف ستا رہا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم میں 20ملین لوگ مارے گئے تھے اور 21 ملین زخمی ہوئے تھے ۔ دوسری جنگ عظیم میں 70 سے 85 ملین لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔انہیں جنگوں کی آڑ میں اسرائیل کاخنجر مسلم دنیا کے دنیا کے سینے میں گھونپ دیا گیا تھا۔دوسری جنگ عظیم یوروپ میں لڑی گئی تھی مگر یہ تیسری اسلامی ممالک میں ہوگی اس لیے لوگ احتیاط کررہے ہیں لیکن یہ بزدلانہ حکمت عملی کارگر نہیں ہوگی ۔ اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے مسلم ممالک کو آگے آنا ہی ہوگا ۔ آزمائش کے حوالے سے جو آیت اوپر مذکور ہے اس سلسلے میں آگے فرمایا گیا ہے کہ :”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں”۔ اس طرح حصولِ جنت کے لیے جان و مال کی قربانی پر ابھارا گیا ہے اور اس ترغیب پر لبیک کہنا مسلم ممالک کا فرض ِمنصبی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔