وجود

... loading ...

وجود

جیون کا ایک اور سال گزر گیا

منگل 02 جنوری 2024 جیون کا ایک اور سال گزر گیا

عطا محمد تبسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سال کا آخری دن بھی عجیب ہے ، سورج تو اسی طرح غروب ہوتا ہے ، جسے صدیوں سے ہوتا آیا ہے ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ
کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
لیکن اس دن سورج غروب ہونے کے مناظر ساری دنیا میں فلمائے جاتے ہیں۔ اور پھر میڈیا پر اس کی تصویر دکھائی جاتی ہے ۔ ایک سال اپنے دامن میں کتنے قصے کہانیاں واقعات ،حادثات لے کر رخصت ہورہا ہے ،نیا سال الیکشن کی نوید لے کر آیا ہے ، لیکن الیکشن کی کوئی رمق نظر نہیں آرہی ہے ،نہ کوئی جوش وخروش ہے ، نہ ہی کوئی تبدیلی کی امید ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ فیصلہ ایمپائر کے ہاتھ میں ہے ، اور ایمپائیر پہلے ہی اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے ،نا امیدی کا یہ عالم ہے کہ جو ریس جیتنے والے گھوڑے ہیں، وہ بھی یہ اعتماد نہیں رکھتے کہ وہ واقعی میدان مار لیں گے ،سیاسی جماعتیں انتخابی مہم سے خوفزدہ ہیں، ان کا یہی مطالبہ ہے کہ ان کو سازگار ماحول ، ایسے مواقع دیے جائیں ۔ جس سے وہ گھر بیٹھے اور بغیر ہاتھ ہلائے الیکشن جیت جائیں۔یہ الیکشن ماضی کے الیکشن سے بدترین الیکشن ہوگا، جس میں ایک فریق کو ہاتھ پیر باندھ کر میدان میں کہا جارہا ہے کہ مقابلہ کرو۔پاکستان میں نادیدہ ہاتھ قیام پاکستان کے فورا بعد سیاست اور سیاست دانوں پر حاوی ہوگئے تھے ۔ اس کا آغازقیام پاکستان کے بعد ہوا، وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا سلسلہ 16 اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوا۔ اس کے بعد سہروردی کے علاوہ خواجہ ناظم الدین محمد علی بوگرا چوہری محمد علی آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون کو تھوڑے تھوڑے مدت کے لیے وزیراعظم بنا کر فارغ کیا کر دیا گیا ۔آئی آئی چندریگر صرف ایک ماہ اور 29 دن کے لیے وزیراعظم رہے ۔ایوب خان کے مارشل لاء سے کچھ دن قبل جس وزیراعظم کو رخصت کیا گیا۔ وہ فیروز خان نون تھے جنہیں نو مہینے 21 دن اقتدار میں رہنے کی مہلت دی گئی ۔ان تمام کاروائیوں سے یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا اس تاثر اور منفی پروپیگنڈے کے بعد بالاخر جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء کے نفاد کا اعلان کیا۔ایوب خان کے مارشل کے بعد 1971 میں انتخابات میں بھی اکثریت کو اقتدار میں شریک نہ کرنے کا نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں سامنے آیا۔ پھر بھٹو کچھ عرصے اقتدار میں رہے ، لیکن پھر انھیں بھی تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اور پھر ایک طویل عرصہ جمہوریت قید و بند میں رہی ۔ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء دور میں بھی نت نئے تجربات ہوئے۔ کبھی مجلس شوری، کبھی ریفرنڈم ، کبھی غیر جماعتی انتخابات، کبھی لسانی جماعتوں کو بڑھاوا دیا جاتا رہا، اور نتیجہ میں افواج پاکستان کے بڑے بڑے جرنیل اور ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوئے ۔نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی چیئر ریس بھی چلتی رہی کہ پھر ایک او ر مارشل لاء نے
جمہوریت کی ریل کو پٹری سے اتار دیا۔ نواز شریف اور زرداری کی باریاں بھی چلتی رہی اور میاں نواز شریف یہ کہتے کہتے رخصت ہوئے کہ مجھے کیوں نکالا۔ عمران خان آئے بھی اور گئے بھی۔ اب نواز شریف اس طرح آئے ہیں کہ ان کے سارے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، بلکہ ان کے ساتھیوں کو بھی تمام مقدمات سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال لیا گیا ہے ، اس ماحول میں دوسری سیاسی جماعتیں ایک طرف تو لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور دوسری جانب پولیٹیکل انجینیئرنگ پر ان کے خدشات ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی بالکل کھل کے یہ کہہ چکی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتیں ، پیپلز پارٹی ، مولانا فضل الرحمن کی پارٹی اور جماعت اسلامی اس وقت اپنے تحفظات ضرور ظاہر کر رہی ہیں لیکن وہ الیکشن کے اس موقع کو گوانا بھی نہیں چاہتی وہ سمجھتی ہیں کہ اگر ان تحفظات کو زیادہ بڑھا کے بیان کیا گیا تو اس کے نتیجے میں انتخابات طویل عرصے کے لیے التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں بھی سیٹیوں کی بندر بانٹ کا فارمولہ طے پارہا ہے ، مسلم لیگ نون ایک بار پھر کراچی میں سرگرم ہورہی ہے ، اور اس کے لیے وہ پھر اپنے پرانے اتحادی ایم کیو ایم کی طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے ۔ شہباز شریف کراچی میں اپنی سیٹ کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور متحدہ سے ان کی بات چیت جاری ہے کہ ان کے مقابلے پر مصطفے کمال اپنے کاغذات واپس لے لیں۔ ابھی بات چیت کے دو تین سیشن مزید ہونے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی قومی اور صوبائی الیکشن میں اپنی ٹیم اتاری ہے ، لیکن جماعت کی قیادت بھی اس مخمصہ کا شکار ہے کہ مقتدر قوتیں، جماعت کو کس قدر پاؤں پھیلانے کی اجازت دیں گے ، جماعت اسلامی کو اس بات کا تجربہ بلدیاتی انتخابات میں ہوچکا کہ جیت کو کس طرح ہار میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔
آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھ کر کیا ملک میں ہونے والے انتخابات پر عوام کا اعتماد ہوگا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر سوچنا چاہئے ، اگر ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سب نے تسلیم نہ کیے تو ملک میں ایک انارکی پھیل جائے گی۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور اعلی عدالتوں کا امتحان ہے کہ وہ اپنی ساگھ اور وقار اور غیر جانبداری کیسے برقرار رکھتی ہیں، اگر وہ اس امتحان میں پورے اترے تو ملک کی آئندہ تاریخ میں انھیں اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے گا، ورنہ برے کارناموں کی سیاہی سے تو بہت سے ابواب سیاہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر