... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شہر کی گلیوں میں مرکری بلب کی روشنیاں نہیں ہوتی تھیں۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں تھی، ہر گھر تو کیا کسی ایک گھر میں فون کی سہولت میسر نہ تھی ۔
یہ واقعہ بھی تو رات کے آخری پہر کا ہے۔ دبے ،دبے قدم ہر طرف ہو کا عالم، یہ ماحول اُس کیلئے قطعاً نیا نہ تھا ۔اندھیرے میں دور تک دیکھنے کی اُسے عادت پڑ چکی تھی لوگ رات کو سونے کی تیاریاں کرتے اور وہ شہر کے گشت کیلئے اپنی ترجیحات کا تعین کرتا۔ اس مہم کیلئے اُسے پروٹو کول کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی زاد سفر کی یہ معمول برس ہا برس سے اُس کی زندگی کا لازمی جزو تھا۔ لہٰذا گلیوں ،بازاروں سے رات بھی وہ اِسی طرح گزرتا جیسے دن دیہاڑے شاید شہر کے لوگ اس لیے بھی لمبی تان کے سوتے تھے کہ اُنہیں اندازہ تھا کہ رات کو وہ جاگتا ہے۔ شہر بھر کے محلے ،گلیوں اور گھروں کا محل ِوقوع اُس کے ذہن میں پوری طرح نقش ہو چکا تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے بھی یہ بتا سکتا تھا کہ یہاں سے کس خاندان کی رہائش گاہیں شروع ہو رہی ہیں مگر آج شب جب وہ سالم کے ساتھ شہر سے تین میل دور تک گشت کرنے گیا تو اُسے روشنی نظر آئی۔ وہ حیرت زدہ ہوا کہ پہلے تو کبھی وہاں روشنی نہیں ہوتی تھی تجسس کے عالم میں روشنی کی سمت بڑھنا شروع ہوا قریب جاکے معلوم ہوا کہ ایک بڑھیا خیمہ زن ہے جس نے چولہے پر ہنڈیا رکھی ہے اور وقفے وقفے سے اُس میں چمچ ہلا رہی ہے۔ چولہے کے گرد اُس کے بچے بھی ہیں۔ وہ اور قریب ہوا تو معلوم ہوا کہ اُس کے بچے بھوک کی شدت سے بلک رہے ہیں اور خاتون اُنہیں تسلیاں دے رہی ہے۔
رات کے مسافر نے پوچھا !
اے خاتون تیرے بچے کیوں رورہے ہیں ؟
بڑھیا نے بتایا بھوک کی وجہ سے
پوچھا ہنڈیا میں کیا پکا رہی ہو ؟ جواب دیا کچھ بھی نہیں ان بچوں کو بہلانے کیلئے صرف پانی ڈال کر اُبال رہی ہوں تاکہ کسی طرح یہ سوجائیں یہ سن کر شب زندہ دار مسافر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ روح کانپ اُٹھی سالم کو ساتھ لیا اور شہر لوٹ آیا۔ تمام رستے بڑھیا کی آواز کی بازگشت اُس کا تعاقب کرتی رہی ،خوف سے اُس کی سسکیاں سنسان گلیوں کی وحشت میں اضافہ کر رہی تھیں۔ واپس پہنچ کر بیت المال کا دروازہ خود کھولا اور اپنے کندھوں پر آٹے کی بوری ،روغن زیتون کا پیکٹ ہاتھ میں خود اُٹھایا۔ سالم نے کہا حضرت وزن زیادہ ہے میرے کندھوں پر رکھ دیجیے۔ جواب دیا کیا قیامت کے روز بھی میرا وزن تم اُٹھائو گے ؟سالم کے قدم ٹھٹھک گئے۔ رات کے مسافر نے سارا سامان کندھوں پر اُٹھا کر شہر سے باہر تین میل دور خیمہ زن بڑھیا کے سامنے رکھ دیا اور کہا بی بی تم کھانا تیار کرو میں آگ جلاتا ہوں وہ آٹا گوندھنے میں لگ گئی اور بوریا نشین چولہے کی آگ جلاتا رہا حتیٰ کہ کھانا تیار ہو گیا۔ بڑھیا بولی تم کتنے اچھے ہو اللہ تمہارا بھلا کرے جو میری مدد کو رات گئے آگئے بھلا عمر کیا جانے کہ شہر سے اتنی دور اس اندھیرے میں کس کے بچے بھوک سے ہلکان ہو رہے ہیں ۔ خلیفہ تو تمہیں ہونا چایئے نہ کہ عمر کو رات کے مسافر نے کہا یا اللہ عمر کو معاف کر دے !اے خاتون تم کل خلیفہ کے پاس آنا میں بھی وہیں ہوں گا اور تمہارا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے گا ۔ اگلے دن جب بڑھیا خلیفہ سے ملنے گئی تو اُس کی کیفیت قابل دید تھی رات کو شہر سے تین میل دور اپنی رعایا کیلئے مارے مارے پھرنے والے حضرت عمر فاروق تھے۔ یہی ہیں رات کے وہ مسافر جن کے دور حکمرانی میں اسلامی سلطنت دو برِ اعظموں اور تین سمند روں تک پھیل چکی تھی۔ یہی وہ بکریاں چرانے والے خطاب کے بیٹے تھے جن کی ہیبت سے بڑے بڑے اُمراء اور کبار اصحاب بھی کانپتے تھے۔
13سو برس پہلے کا یہ واقعہ مجھے اُس روز یاد آیااور شدت سے یاد آیا جب 45000کے عو ض تہمینہ دولتانہ کے حلقے لڈن میں ایک ہوٹل مالک نے دو کمسن بچے خریدلئے اور شباب ملی لڈن کے صدر میاں سجاد دولتانہ نے تھانہ لڈن میں احتجاج کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ جب ہمارے کارکن شوکت علی ،عمیر اور سجاد رات کو کھانا کھانے کیلئے چٹخارہ ریسٹورنٹ میں گئے تو کھانا کھانے کے بعد شوکت علی نے ایک کمسن بچے جس کی عمر تقریبا ً آٹھ سال ہے جوکہ ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرتا ہے کو بیس روپے ٹپ دی تو وہ رونے لگ گیا جس پر اُنہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو تو تو بچے نے بتایا کہ ایک سال پہلے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو ہوٹل مالکان ضرافت قریشی اور فرخ قریشی نے 45000روپے کے عوض خریدا تھا چھوٹا بھائی ان کے مویشی خانہ میں کام کرتا ہے اور میں ہوٹل میں کام کرتا ہوں۔ قرطاس ِ تاریخ میں بغیر سکیورٹی اور بغیر دربان کے یہ حکمران مجھے اُس وقت یاد آیا جب رائے ونڈ کے حکمرانوں نے اپنی سکیورٹی کیلئے 24 لاکھ مالیت کے 6کتے خریدے، رعایا کو جواب دہ حکمران مجھے اُس وقت یاد آیا جب رائے ونڈ کے حکمرانوں نے پھل توڑنے پر سرکاری اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کرادیا۔ اُسی شہر میں اشرف نامی نوجوان اپنے بچے کو دودھ نہ ملنے سے خود کشی کر گیا، کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔