وجود

... loading ...

وجود

عوامی خدمت کا انداز ؟

اتوار 31 دسمبر 2023 عوامی خدمت کا انداز ؟

بے نقاب /ایم آر ملک

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شہر کی گلیوں میں مرکری بلب کی روشنیاں نہیں ہوتی تھیں۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں تھی، ہر گھر تو کیا کسی ایک گھر میں فون کی سہولت میسر نہ تھی ۔
یہ واقعہ بھی تو رات کے آخری پہر کا ہے۔ دبے ،دبے قدم ہر طرف ہو کا عالم، یہ ماحول اُس کیلئے قطعاً نیا نہ تھا ۔اندھیرے میں دور تک دیکھنے کی اُسے عادت پڑ چکی تھی لوگ رات کو سونے کی تیاریاں کرتے اور وہ شہر کے گشت کیلئے اپنی ترجیحات کا تعین کرتا۔ اس مہم کیلئے اُسے پروٹو کول کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی زاد سفر کی یہ معمول برس ہا برس سے اُس کی زندگی کا لازمی جزو تھا۔ لہٰذا گلیوں ،بازاروں سے رات بھی وہ اِسی طرح گزرتا جیسے دن دیہاڑے شاید شہر کے لوگ اس لیے بھی لمبی تان کے سوتے تھے کہ اُنہیں اندازہ تھا کہ رات کو وہ جاگتا ہے۔ شہر بھر کے محلے ،گلیوں اور گھروں کا محل ِوقوع اُس کے ذہن میں پوری طرح نقش ہو چکا تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے بھی یہ بتا سکتا تھا کہ یہاں سے کس خاندان کی رہائش گاہیں شروع ہو رہی ہیں مگر آج شب جب وہ سالم کے ساتھ شہر سے تین میل دور تک گشت کرنے گیا تو اُسے روشنی نظر آئی۔ وہ حیرت زدہ ہوا کہ پہلے تو کبھی وہاں روشنی نہیں ہوتی تھی تجسس کے عالم میں روشنی کی سمت بڑھنا شروع ہوا قریب جاکے معلوم ہوا کہ ایک بڑھیا خیمہ زن ہے جس نے چولہے پر ہنڈیا رکھی ہے اور وقفے وقفے سے اُس میں چمچ ہلا رہی ہے۔ چولہے کے گرد اُس کے بچے بھی ہیں۔ وہ اور قریب ہوا تو معلوم ہوا کہ اُس کے بچے بھوک کی شدت سے بلک رہے ہیں اور خاتون اُنہیں تسلیاں دے رہی ہے۔
رات کے مسافر نے پوچھا !
اے خاتون تیرے بچے کیوں رورہے ہیں ؟
بڑھیا نے بتایا بھوک کی وجہ سے
پوچھا ہنڈیا میں کیا پکا رہی ہو ؟ جواب دیا کچھ بھی نہیں ان بچوں کو بہلانے کیلئے صرف پانی ڈال کر اُبال رہی ہوں تاکہ کسی طرح یہ سوجائیں یہ سن کر شب زندہ دار مسافر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ روح کانپ اُٹھی سالم کو ساتھ لیا اور شہر لوٹ آیا۔ تمام رستے بڑھیا کی آواز کی بازگشت اُس کا تعاقب کرتی رہی ،خوف سے اُس کی سسکیاں سنسان گلیوں کی وحشت میں اضافہ کر رہی تھیں۔ واپس پہنچ کر بیت المال کا دروازہ خود کھولا اور اپنے کندھوں پر آٹے کی بوری ،روغن زیتون کا پیکٹ ہاتھ میں خود اُٹھایا۔ سالم نے کہا حضرت وزن زیادہ ہے میرے کندھوں پر رکھ دیجیے۔ جواب دیا کیا قیامت کے روز بھی میرا وزن تم اُٹھائو گے ؟سالم کے قدم ٹھٹھک گئے۔ رات کے مسافر نے سارا سامان کندھوں پر اُٹھا کر شہر سے باہر تین میل دور خیمہ زن بڑھیا کے سامنے رکھ دیا اور کہا بی بی تم کھانا تیار کرو میں آگ جلاتا ہوں وہ آٹا گوندھنے میں لگ گئی اور بوریا نشین چولہے کی آگ جلاتا رہا حتیٰ کہ کھانا تیار ہو گیا۔ بڑھیا بولی تم کتنے اچھے ہو اللہ تمہارا بھلا کرے جو میری مدد کو رات گئے آگئے بھلا عمر کیا جانے کہ شہر سے اتنی دور اس اندھیرے میں کس کے بچے بھوک سے ہلکان ہو رہے ہیں ۔ خلیفہ تو تمہیں ہونا چایئے نہ کہ عمر کو رات کے مسافر نے کہا یا اللہ عمر کو معاف کر دے !اے خاتون تم کل خلیفہ کے پاس آنا میں بھی وہیں ہوں گا اور تمہارا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے گا ۔ اگلے دن جب بڑھیا خلیفہ سے ملنے گئی تو اُس کی کیفیت قابل دید تھی رات کو شہر سے تین میل دور اپنی رعایا کیلئے مارے مارے پھرنے والے حضرت عمر فاروق تھے۔ یہی ہیں رات کے وہ مسافر جن کے دور حکمرانی میں اسلامی سلطنت دو برِ اعظموں اور تین سمند روں تک پھیل چکی تھی۔ یہی وہ بکریاں چرانے والے خطاب کے بیٹے تھے جن کی ہیبت سے بڑے بڑے اُمراء اور کبار اصحاب بھی کانپتے تھے۔
13سو برس پہلے کا یہ واقعہ مجھے اُس روز یاد آیااور شدت سے یاد آیا جب 45000کے عو ض تہمینہ دولتانہ کے حلقے لڈن میں ایک ہوٹل مالک نے دو کمسن بچے خریدلئے اور شباب ملی لڈن کے صدر میاں سجاد دولتانہ نے تھانہ لڈن میں احتجاج کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ جب ہمارے کارکن شوکت علی ،عمیر اور سجاد رات کو کھانا کھانے کیلئے چٹخارہ ریسٹورنٹ میں گئے تو کھانا کھانے کے بعد شوکت علی نے ایک کمسن بچے جس کی عمر تقریبا ً آٹھ سال ہے جوکہ ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرتا ہے کو بیس روپے ٹپ دی تو وہ رونے لگ گیا جس پر اُنہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو تو تو بچے نے بتایا کہ ایک سال پہلے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو ہوٹل مالکان ضرافت قریشی اور فرخ قریشی نے 45000روپے کے عوض خریدا تھا چھوٹا بھائی ان کے مویشی خانہ میں کام کرتا ہے اور میں ہوٹل میں کام کرتا ہوں۔ قرطاس ِ تاریخ میں بغیر سکیورٹی اور بغیر دربان کے یہ حکمران مجھے اُس وقت یاد آیا جب رائے ونڈ کے حکمرانوں نے اپنی سکیورٹی کیلئے 24 لاکھ مالیت کے 6کتے خریدے، رعایا کو جواب دہ حکمران مجھے اُس وقت یاد آیا جب رائے ونڈ کے حکمرانوں نے پھل توڑنے پر سرکاری اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کرادیا۔ اُسی شہر میں اشرف نامی نوجوان اپنے بچے کو دودھ نہ ملنے سے خود کشی کر گیا، کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر