... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
بھٹو کی بیٹی ،دختر مشرق اور اسلامی ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کاکو ہم سے بچھڑے 16سال بیت گئے۔ 27 دسمبرکو نہ صرف جیالے بلکہ دنیا بھر میں بھٹو خاندان سے پیار کرنے والے ان کی برسی مناتے ہیں۔ بینظیر بھٹو جب کسی جلسہ میں تقریر کرنے پہنچتی تو چاروں صوبوں کی زنجیر ۔بینظیر بینظیر کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے 1988 سے 1990 اور پھر 1993 سے 1996 تک پاکستان کی 11ویں اور 13ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو 1980 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 2007 میں اپنی شہادت تک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ یا شریک چیئرمین رہیں ۔محترمہ بینظیر بھٹو کراچی میں سیاسی طور پر ایک اہم اور امیر خاندان میں پیدا ہوئی انہوںنے ہارورڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی رہی ان کے والد اورپیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار بھٹو 1973 میں ایک سوشلسٹ پلیٹ فارم پر وزیر اعظم منتخب ہوئے جنہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھی اور پھر جب انہیں اسکی پاداش میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو پھر محترمہ بینظیر بھٹو 1977 میں پاکستان واپس آئیں جنہوں نے اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر پی پی پی کا کنٹرول سنبھالا اور ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک کی قیادت کی محترمہ بینظیر بھٹو کو محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے بار بار قید کیاجس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے 1984 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی 1986 میں وہ واپس آئیں اور تھیچری معاشیات سے متاثر ہو کر پی پی پی کے پلیٹ فارم کو سوشلسٹ سے ایک لبرل میں تبدیل کر دیا۔ 1988 کے الیکشن میں انکی پارٹی جیت گئی اور محترمہ بینظیر بھٹوعالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوگئی لیکن ان کی اصلاحات کی کوششوں کو قدامت پسند قوتوں بشمول صدر غلام اسحاق خان اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے روک دیا۔ ان پر بدعنوانی اور اقربا پروری کا الزام لگا کر 1990 میں غلام اسحاق خان نے محترمہ بینظیر بھٹوکو برطرف کر دیا جسکے بعد اگلے الیکشن میں اسٹبلشمنٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کی بنیاد رکھی اور پھر انہیں الیکشن بھی جتوا دیاجسکے نتیجہ میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر بن کر سامنے آئی اور پھر وزیر اعظم میاں نواز شریف پر بھی بدعنوانی کے شدید الزامات لگا کر انہیں بھی مقتدر قوتوں نے اقتدار سے رخصت کردیاپھر 1993 کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹونے پی پی پی کی قیادت کی اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے ملک کی دوسری بار وزیر اعظم بن گئی انہوں نے اس دوران معاشی نجکاری کی نگرانی کی اور خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ان کی حکومت کو کئی طرح سے نقصان پہنچا۔ اسی دوران ان کے بھائی مرتضیٰ کا قتل بھی ہوا اور 1995 کی ناکام بغاوت بھی سامنے آئی اور پھر آخر کارایک مزید رشوت ستانی کا اسکینڈل جس میں وہ اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کوشامل کرکے اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا، یہ وہی فاروق لغاری تھے جنہیں بینظیر نے پارٹی وفاداری کے نتیجہ میں صدر پاکستان بنایا تھا لیکن انہوں نے ہی میاں نواز شریف کے ساتھ ملکر اپنے ہی محسنوں کی پیٹھ میںچھرا گھونپ دیا اور پھرپیپلز پارٹی 1997 کا الیکشن ہار گئی جس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو 1998 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر گئیں اور اگلی دہائی تک دبئی اور لندن کے درمیان رہیں جبکہ ان پر ایک وسیع تر بدعنوانی کی انکوائری کا اختتام 2003 میں سوئس عدالت میں سزا پر ہوامحترمہ بینظیر بھٹو اور انکے شوہر آصف علی زرداری پر جتنے بھی کرپشن کے کیسز بنائے گئے ، یہ سب میاں نواز شریف کے دور میں بنے اور پھر جب جنرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس میں میاں نواز شریف کا تختہ الٹا۔میاں نواز شریف این آر او کرکے سعودی عرب چلے گئے۔ اسی دوران محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن میں میثاق جمہوریت بھی کرلیا اور پھر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد وہ 2008 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئیں اور راولپنڈی میں ایک سیاسی جلسے کے بعد انہیں سر میںگولی مار کرشہید کردیاجس کے بعد انہیں گڑھی خدا بخش میں ان کے خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیامحترمہ بینظیر بھٹو شہید اپنے چار بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑی تھیں جو 21جون 1953کو پیدا ہوئی جبکہ مرتضیٰ بھٹو 1954 میں، صنم بھٹو1957 میں اور شاہنوازبھٹو1958 میں پیدا ہوئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی زبان انگریزی تھی جبکہ اردو اور سندھی پر بھی انہیں عبور تھا اور اپنی والدہ سے انہوں نے فارسی بھی سیکھ رکھی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹونے ہمیشہ اپنے والد کواپنا آئیڈیل رکھا جب محترمہ بینظیر بھٹو پانچ سال کی تھے تو ان کے والد توانائی کے وزیر بنے اور جب وہ نو سال کی تھیں تو وہ ملک کے وزیر خارجہ بن گئے محترمہ بینظیر بھٹوچھوٹی عمر سے ہی غیر ملکی سفارت کاروں اور شخصیات کے ساتھ اپنے والد کے ہمراہ ملاقاتیں کرتی رہتی تھی جن میں زو این لائی، ہنری کسنجر، اور ہیوبرٹ ہمفری۔محترمہ بینظیر بھٹوجب 13سال کی تھیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا اور ایک سال بعد اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بنیاد رکھی روٹی ،کپڑا اور مکان جیسا نعرہ دیا اور ساتھ میں “اسلام ہمارا ایمان ہے، جمہوریت ہماری پالیسی ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، تمام طاقت عوام کے پاس اوررکشمیر کا متنازعہ علاقہ ہندوستان سے پاکستانی کنٹرول میں منتقل کیا جائے گاکو اپنے منشور کا حصہ بھی بنایا۔محترمہ بینظیر بھٹونے خواتین کو حقوق دلوانے میںبہت بڑا کردار ادا کیا اب انکا بیٹا بلاول بھٹو زرداری میدان سیاست میں ہے جنہوں نے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا اور پھر اس کے بدلے میں انہیں وزارت خارجہ عطا کی گئی اور انکی پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کو ا سپیکر قومی اسمبلی بنایا گیامحترمہ بینظیر بھٹوواقعی کمال کی خاتون تھیںجو نڈر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی ورکروں کی ماں بھی تھی جنہوں نے قربانیاں دینے والے ورکروں کو یاد بھی رکھا اور انہیں اہم عہدوں پر بھی تعینات کیا۔ بلاول بھٹو میں بھی بینظیر کا خون ہے جو ورکروں کی اہمیت کو خوب سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی شیخوپورہ کے دیہات میں عام ورکر کے گھر پہنچا ہوتا ہے تو کبھی تھر کے غریب لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ شہید رانی واقعی ایک بہادر خاتون تھی جنہوں نے بہادری سے موت کو گلے لگایا اور آج ان پر لکھا ہوا گانا
ظلم کی زنجیریں توڑنیں
مظلوموں سے رشتے جوڑنے
دکھ کے دریائوں سے گذر کے
اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے
بھٹو کی بیٹی آئی تھی
زبان زدعام ہے ۔۔۔۔۔