... loading ...
سمیع اللہ ملک
کچھ لکھنے کوجی نہیں چاہتااوراس کی شکایت میں نے اپنی مربی سے بھی کی۔ان کی تشویش اورفکربھی دل کوکھائے جارہی ہے۔ تنہائی ہے،دکھ ہیں،اداسی ہے چارسوپھیلی ہوئی،غم ہیں بادلوں کی طرح چھائے ہوئے،بھیڑہے،اژدھام ہے اورپھربھی ہرکوئی اکیلا ہے ۔ آسرا، کوئی چھپرنظرنہیں آتاکہ تھوڑی دیرسستالیں،ہرایک پسینے میں ڈوباہوا،سڑک پرکھڑابے روزگار نوجوان اورسامنے سے پولیس اسکواڈکے ساتھ سائرن بجاتی ہوئی پراڈومیں بیٹھاہواغریبوں کی قسمت سنوارنے کادعویدارلیڈر،بیان ہی بیان،تقریریں ہی تقریریں، بینرز ہی بینرز، مباحثہ اورٹاک شو،دانشوری ہرجگہ دیگوں میں پک رہی ہے جس کی سڑاندسے جینادوبھرہوگیاہے۔قیمتی لباس میں مسکراتے ہوئے تجزیہ کار، غریبوں کوبیچ کھانے والے دلال ،انسانی منڈی جس میں ہرشئے برائے فروخت ہے۔ضمیر،جسم،قول و فعل ،بولوجی تم کیا کیا خریدو گے۔ آوازوں کاجنگل جس میں تنہاکھڑابے دست وپابندہ بشر!
حکمرانی کی مئے میں مدہوش زردار،یارومجھے معاف کرومیں نشے میں ہوں،یوں کرلو،نہیں جناب ایساکرو،نہیں نہیں یہ کروجومیں کہتا ہوں۔ کہیں میلہ ہے زندگی کااورکہیں برپاہے ماتم،ہرجگہ بھوک ناچ رہی ہے جسے خود کشی آسودہ کرتی ہے اورکہیں بتائی جارہی ہیں ترکیبیں انواع واقسام کے کھانوں کی،کہیں بچیاں منہ اندھیرے اپنے خواب دفن کرکے کام پر جانے کیلئے اسٹاپ پرکھڑی ہیں جنہیں من چلے اپنی جاگیرسمجھ بیٹھے ہیں اورکہیں ہے کیٹ واک،کہیں بدن چھپانے کیلئے ڈھنگ کے کپڑے نہیں،او کہیں جسم دکھانے کیلئے فیشن ڈیزائننگ،عجب گھڑی ہے،عجیب تماشہ ہے،میڈیاآزادہے اورہرخبرپرنظررکھے ہوئے،اورخبرکیاہے،کوئی بتاتا نہیں ہے۔
ہم ایک سجدہ کوگراں سمجھ بیٹھے اوراب ہرجگہ ذلت ورسوائی کے ساتھ سربسجودہیں۔ایک کوچھوڑاتوجہاں کے محتاج ہوگئے،ایک کی نہیں سنی، اب ہرایک کی جلی کٹی بھی سننی پڑرہی ہیں، ایک کی نہیں مانی اوراب زمانے بھرکی ماننی پڑرہی ہیں،اسی ایک در سے نہیں مانگااوراب کبھی ڈونرانٹرنیشنل کانفرنسوں میں جھولی پھیلائے کھڑے ہیں اورکبھی وعدوں کے باوجود خیرات نہ ملنے کی شکائت کررہے ہیں۔۔اس ایک شعائرکی توہین کی،اب ہرجگہ مردودہیں۔یہ سب کچھ کیادھراہمارااپناہے،اب تویہ فصل کاٹنی ہی پڑے گی ،وہ ایک توہم پرہمیشہ مہربان رہاتوقدرنہ کی لیکن ہم نے یاری لگائی عیاروں سے مکاروں سے۔بہت سناہوگاآپ نے،بے قدروں سے یاری لگاناایک نازک چوڑی کی طرح ہوتاہے جس کامقدر بالآخر ان گنت ٹکڑوں کے سواکچھ نہیں،لیکن نہیں مانے ہم۔
اپنی تگڑم لڑائی، جی ہم توفلاں یونیورسٹی کے فاضل ہیں۔اب پتہ چلاوہ توجہالت کاپروانہ تھاجسے ہم ڈگری سمجھ کرنہال ہوگئے تھے ۔بس ایک درہے ،وہی تھا،وہی رہے گا!بندہ کے دینے سے کبھی پیٹ نہیں بھرتااورپھراس کے سامنے نگاہیں بھی نیچی رہتی ہیں، لیکن وہ توبے حساب دیتاہے اورپھر طعنہ بھی کوئی نہیں۔ لیکن اب کون سمجھائے ان کو!یہ تو پاکستان کے اعلی مناصب پربیٹھ کر بھی اپنے آقاکونہیں پہچان سکے، پاکستان کے دورے پرکچھ دن کیلئے آتے ہیں اورپھر….وہی چال بے ڈھنگی جوپہلے تھی سواب بھی ہے۔دعاؤں کیلئے غربت کی لکیرسے نیچے کی آبادی جوموجودہے،نہ غربت ختم ہورہی ہے اورنہ ہی غریب….!
چلتے چلتے ایک واقعہ سن لیں۔ ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان محل تعمیرکروایاجس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے۔ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس محل میں جاگھسا۔رات کے وقت محل کارکھوالامحل کادروازہ بندکرکے چلاگیالیکن وہ کتامحل میں ہی رہ گیا۔کتے نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی تواسے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظرآئے ۔ اسے ہرآئینے میں ایک کتادکھائی دے رہاتھا۔اس کتے نے کبھی اپنے آپ کواتنے دشمنوں کے درمیان پھنساہوانہیں پایاتھا۔اگرایک آدھ کتاہوتاتوشائد وہ اس سے لڑکرجیت جاتا لیکن اب کی باراسے اپنی موت یقینی نظرآرہی تھی۔کتاجس طرف آنکھ اٹھاتااسے کتے ہی کتے نظرآتے۔اوپراورنیچے چاروں طرف کتے ہی کتے تھے۔کتے نے بھونک کران کتوں کوڈراناچاہا،دھیان رہے کہ دوسروں کوڈرانے والادراصل خودڈراہواہوتاہے ورنہ کسی کو ڈرانیکی ضرورت ہی کیاہے؟جب کتے نے بھونک کران کتوں کوڈرانے کی کوشش کی تووہ سینکڑوں کتے بھی بھونکنے لگے۔اس کی نس نس کانپ اٹھی۔اسے محسوس ہواکہ اس کے بچنے کاکوئی راستہ نہیں کیونکہ وہ چاروں طرف سے گھر چکاتھا۔صبح چوکیدارنے دروازہ کھولاتو محل میں کتے کی لاش پڑی تھی۔ اس محل میں کوئی بھی موجودنہ تھا،جواسے مارتا۔محل خالی تھالیکن کتے کے پورے جسم میں زخموں کے نشان تھے۔وہ خون میں لت پت تھا۔ اس کتے کے ساتھ کیاہوا ؟؟؟؟خوف کے عالم میں وہ کتابھونکتا،جھپٹادیواروں سے ٹکرایااورمرگیا۔
ہمارے سبھی تعلقات،سبھی حوالے آئینوں کی مانندہیں۔ان سب میں ہم اپنی ہی تصویردیکھتے ہیں۔نفرت سے بھراآدمی یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ سب لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ لالچی آدمی کویوں معلوم ہوتاہے کہ سب اس کولوٹنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔وہ اپنے لالچ کی تصویردنیاکے آئینہ خانے میں دیکھتاہے۔شہوانیت کامریض سوچتاہے کہ ساری دنیا اسے جسم پرستی کی دعوت دے رہی ہے۔ فقیرکہتاہے کہ ساری دنیاایک ہی اشارہ کررہی ہے کہ چھوڑدوسب کچھ ،بھاگ جاؤدنیاسے۔ہم جوکچھ بھی ہیں وہی کچھ ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی پڑتاہے۔ساراجگ آئینہ ہے جس میں ہمیں اپناآپ ہی دکھائی پڑرہاہوتاہے۔
اپنے اردگردکے آئینوں کواپنے عمل،کرداراوراخلاق کے ساتھ صاف رکھنے کی کوشش کریں کیوںکہ ہماراآئینہ ہمارے لئے راہِ نجات بھی ہے اورباعث پکڑبھی۔میرے خیال میں کہانی کامقصداپنے اردگردکے آئینے کواپنے عمل،کرداراوراخلاق سے صاف رکھنے کی کوشش کرناہے کیونکہ ہماراآئینہ بھی ہماری نجات اورہماری گرفت کاسبب ہے۔پھر آج کیوں نہ اس پرعمل کریں۔ نجانے ایسے عنوان کیوں میری قلم کاشکارہوجاتے ہیں۔لیکن اس میں ان کابھی قصورہے،جوہرروزصبح وشام جوکچھ مجھے پڑھنے کیلئے روانہ کرتے ہیں،اس کاکچھ توردِعمل ہوگا۔مجھے آج دونظمیں آپ کی خدمت میں پیش کرنی ہیں جوآپ ہی کی طرف لوٹارہا ہوں !ذرادل تھام کرپڑھئے!
تیری دنیا کے باسی
کہایہ اس نے
تم اپنی اپنی پسندکے موسموں کوچن لو
زمیں کودیکھو،کہیں پہاڑوں کی وادیاں ہیں
کہیں پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں
کہیں یہ میداں کے سبزہ زاروں پر
موسم گل کی داستان ہے
کہیں پہ نیلے سمندروں کے شفاف سینے کھلے ہوئے ہیں
کہیں پہ صحراکاذرہ ذرہ دمک رہاہے
جوچاہوتاروں کی کھیتیوں کوتوآسمان کی زمین لے لو
کہایہ ہم نے
خدائے برتر،بزرگ وبینا
یہ ساری چیزیں انہیں عطا کر
جواپنے خاراشگاف ہاتھوں سے دشت وصحراکوچیرتے ہیں
سمندروں کوبلوکران سے شفاف موتی نکالتے ہیں
ہمیں توتیراکرم بہت ہے
ہمیں مشقت کی چیرہ دستی سے اپنے حفظ واماں میں رکھنا
ہمیں توراس آگیاہے یارب
غریب رہنا،اسیررہنا
ہمیں اسیرِدوام کردے
ہمیں کسی کاغلام کردے
کیسی لگی ہے یہ نظم آپ کو!ایک مرتبہ دوبارہ پڑھ لیں۔اب دوسری نظم بھی پڑھ لیں!
مرے بدن سے گریزکرتی ہواسے کہنا
وجودکے ہرمسام میں جوغلاظتیں ہیں
یہ ذلتیں ہیں کئی برس کی
ہواسے کہنا
کہ نوحہ پڑھتی تمام صبحیں،سلگتی شامیں
مری کہانی سنارہی ہیں
حیات کا اب جوازکیاہے
کہ سرسے آکاش اڑگیاہے
قدم زمیں پرلرزرہے ہیں
توکیوں نہ لکنت زباں میں آئے
اسیرسوچیں علیل ذہنوں میں سڑرہی ہیں
یہ خالی برتن کھنک رہے ہیں
فصیل پربھی لہوکے دھبے پڑے ہوئے ہیں
ہواسے کہنا
غلام گردش کے تن بدن سے
گریزکرتی ہوئی ہواسے کہنا
اجازت دیں۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،کچھ بھی نہیں۔سب کواسی کی طرف لوٹناہے،بس نام رہے گامیرے رب کا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔