وجود

... loading ...

وجود

بانی پاکستان ،عظیم قائد

منگل 26 دسمبر 2023 بانی پاکستان ،عظیم قائد

شمعونہ صدف

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے شہا ب الدین غوری کے حملے کے بعد سے لے کر آخر ی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی معزولی و گرفتاری تک تقریباً آٹھ سو برس تک حکمرانی کی۔ تاہم سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد برصغیر پاک و ہند میںغلامی کا دور شروع ہو گیا اور انگریزوں نے تقریباً ایک سوسال تک حکمرانی کی تاہم اس دوران غلامی سے نجات کی تحریک چلی اور مسلمانوں نے با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں انگریزوں سے 14 اگست1947 کو آزادی حاصل کر لی۔ قائد اعظم ٢٥ دسمبر ١٨٧٦ کو وزیر مینشن (کھارادر ) کراچی میں پیدا ہوئے۔وہ جناح پونجا کے بچوں میں سب سے بڑے تھے ۔ابتدائی تعلیم گجراتی تعلیمی ادارے میں پانے کے بعد ٤ جولائی ١٨٨٧ء کو سندھ مدرسة الاسلام میں داخلہ لیا۔ جنوری ١٨٩٣ء میں والد کے کاروبار کے سلسلہ میں لندن گئے اور وہیں قانون کی تعلیم کے حصول کی خواہش کے پیش نظر ”لنکنز اِن” میں داخلہ حاصل کرلیا۔ ١٨٩٦ء میں اس ادارے سے بیرسٹری کی سند لی اور کراچی آکر وکالت شروع کی لیکن ایک سال بعد ہی ١٨٩٧ء میں بمبئی چلے گئے اور بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت شروع کردی۔ ١٩٠٠ء میں بحیثیت پریذیڈنسی مجسٹریٹ میں تقرر ہوا۔ ١٩٠٦ء سے قائد اعظم نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔اسی سال دادا بھائی نوروجی کے ہمراہ کلکتہ میں انڈین نیشنل کانگریس کے اس تاریخی اجلاس میں شریک ہوئے جس میں صدر نشیں دادا بھائی نوروجی نے ہندوستان کے لیے حکومتِ خود اختیاری کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اس اجلاس میں قائد اعظم نے مسلمانوں کے وقف علی الاولاد کے مسئلہ سے متعلق قرارداد پر اپنی تقریر کیاور حکومت خود اختیاری کی قرارداد میں ایک ترمیم پیش کی۔١٩٠٧ء میں جب کانگریس میں انتہا پسند اور اعتدال پسند رویہ رکھنے والے اراکین میں تنازعہ پیدا ہوا تو محمد علی جناح کی ہمدردیاں اعتدال پسندوں کے ساتھ تھیں۔ ١٩٠٩ء میںببمئی کے مسلم حلقے سے لیجیسلیٹو کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوئے ۔ ١٩١٣ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شامل ہونے کے لیے قائد اعظم کو دعوت دی گئی۔ اس کے بعد جلد ہی وہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر صف اول کے رہنما بن گئے۔ اسی دوران ١٩١٨ء میں رتن بائی جن کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ، سے شادی انجام پائی۔قائد اعظم نے ١٩١٦ء میں میثاق لکھنو کی طرح ڈالی جس کی رو سے کانگریس کو مسلمانوں کے جداگانہ حق نیابت کو ماننا پڑا۔اس طرح مسلم لیگ قائد اعظم کی رہنمائی میں اپنے موقف کا بھرپور اظہار کرنے لگی اور مسلمان اپنے محبوب کے لیے مرمٹنے پر تیار ہوگئے۔
قائد اعظم کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کو سوائے خدائے بزرگ کے کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔انہوں نے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کرکے فرمایا ”اسلام ہمیشہ آزاد زندہ رہا ہے اور اس کے بعد بھی اسے آزاد ہی رہنا چاہیے۔میں آرزو مند ہوں کہ مسلمان اپنے ہاتھ سے چھوڑے ہوئے ایمان کو دوبارہ ہاتھ میں لیں گے اور تحصیل استقلال کے لیے کسی رکاوٹ سے خوفزدہ نہ ہوں، خواہ ایک دنیا ان کی دشمنی پر اتر آئے ۔اس مقصد کے انجام کے لیے اس کے بعد ہمارا شعار یہ تین کلمے ہوں گے ۔اتحاد، ایمان اور تنظیم۔”مسلمانوں نے قائد اعظم کے اس بیان پر پوری طرح عمل کیا اور اس طرح مسلم لیگ کی قوت اس قدر بڑھ گئی کہ ہندو قیادت بوکھلا اٹھی ۔حکومت نے ملک میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا تو محمد علی جناح نے اس کے خلاف بطور احتجاج ٢٨ مارچ ١٩١٩ء کو امپیریل لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔۔٢٥ اکتوبر ١٩٢٠ء کو ہوم لیگ سے بھی مستعفی ہو گئے اور ٢٨ دسمبر ١٩٢٠ء کو کانگریس کا سالانہ اجلاس ناگپور میں منعقد ہوا تو گاندھی کی عدم تعاون تحریک کی مخالفت کی اور اسی بنا پر کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ۔فروری ١٩٢٨ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی۔مارچ ١٩٢٨ء میں انہوں نے نہرو رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔نہرو رپورٹ کا جواب دینے کے لیے اور بطور خاص مسلمانوں کے تحفظ کے لیے قائد اعظم نے ٢٨ مارچ ١٩٢٩ء کو مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ دہلی میں پہلی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔٤ مارچ ١٩٣٤ء کو حافظ ہدایت اللہ کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا مستقل صدر منتخب کرلیا گیا۔اپریل ١٩٣٦ء میں دہلی میں جمیعت العلماء کانفرنس میں شرکت کی اور بر صغیر کے تمام مسلمانوں کو ملک کی آزادی کے لیے متحد و منظم ہونے کی درخواست کی۔ ١٩٣٦ء ہی سے بنگال، پنجاب، کراچی اور مختلف چھوٹے بڑے شہروں کا دورہ کرکے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرکے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے پر راغب کیا جس کے نتیجے میں بر صغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے بینر تلے یکجا ہوگئے اور مسلم لیگ مسلمانان بر صغیر کی سب سے بڑی اور نمائندہ جماعت بن گئی۔٢٣ مارچ ١٩٤٠ء کو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ۔یہاں پر پہلی بار واضح طور پر قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی، منظور کی گئی ۔اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کو آئینی طور پر خود مختار ریاستیں بنا دیا جائے اور یہ علاقے خود مختار سلطنتیں ہوں۔ قراردار پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان میں مزید تیزی آگئی ۔بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقاء کار کی یہ جدوجہد بالآخر رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا اور ٣ جون ١٩٤٧ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔اس منصوبے کو کانگریس کی جانب سے پنڈت جواہر لال نہرو، آل انڈیا مسلم لیگ سے قائد اعظم محمد علی جناح اور سکھوں کی جانب سے سردار بلدیو سنگھ نے قبول کرلیا۔ قائد اعظم نے اس موقع پر اپنے خطاب کے اختتام پر پہلی بار ”پاکستان زندہ باد” کے تاریخی الفا ظ کہے اور پھر ١٤ اگست ١٩٤٧ء کی رات ریڈیو پاکستان لاہور سے پاکستان کی آزادی کا اعلان کردیا گیا۔حصول پاکستان کی اس طویل جدوجہد میں بالآخر منزل پالینے کے بعد قائد اعظم شدید کام اور غور و فکر کے باعث خاصے کمزور ہو چکے تھے ۔ان کی عمر اب بہترسال ہوچکی تھی اور وہ بے حد نحیف و نزار رہنے لگے تھے۔جبکہ ١٩٤٠ء کی دہائی میں انہیں تپ دق کا عارضہ بھی لاحق ہوچکا تھا لیکن ان کے معالج نے قائد اعظم کی ہدایت پر تادم آخر اپنوں اور غیروں سے پوشیدہ رکھا تھا ۔یہ بیماری انہیں اندر سے ختم کرچکی تھی اور اتنا عرصہ بھی وہ محض اپنی مضبوط قوت ارادی کے باعث حیات رہے تھے۔قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد ہی ١١ ستمبر ١٩٤٨ء کو وفات پاگئے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر