... loading ...
شمعونہ صدف
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے شہا ب الدین غوری کے حملے کے بعد سے لے کر آخر ی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی معزولی و گرفتاری تک تقریباً آٹھ سو برس تک حکمرانی کی۔ تاہم سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد برصغیر پاک و ہند میںغلامی کا دور شروع ہو گیا اور انگریزوں نے تقریباً ایک سوسال تک حکمرانی کی تاہم اس دوران غلامی سے نجات کی تحریک چلی اور مسلمانوں نے با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں انگریزوں سے 14 اگست1947 کو آزادی حاصل کر لی۔ قائد اعظم ٢٥ دسمبر ١٨٧٦ کو وزیر مینشن (کھارادر ) کراچی میں پیدا ہوئے۔وہ جناح پونجا کے بچوں میں سب سے بڑے تھے ۔ابتدائی تعلیم گجراتی تعلیمی ادارے میں پانے کے بعد ٤ جولائی ١٨٨٧ء کو سندھ مدرسة الاسلام میں داخلہ لیا۔ جنوری ١٨٩٣ء میں والد کے کاروبار کے سلسلہ میں لندن گئے اور وہیں قانون کی تعلیم کے حصول کی خواہش کے پیش نظر ”لنکنز اِن” میں داخلہ حاصل کرلیا۔ ١٨٩٦ء میں اس ادارے سے بیرسٹری کی سند لی اور کراچی آکر وکالت شروع کی لیکن ایک سال بعد ہی ١٨٩٧ء میں بمبئی چلے گئے اور بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت شروع کردی۔ ١٩٠٠ء میں بحیثیت پریذیڈنسی مجسٹریٹ میں تقرر ہوا۔ ١٩٠٦ء سے قائد اعظم نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔اسی سال دادا بھائی نوروجی کے ہمراہ کلکتہ میں انڈین نیشنل کانگریس کے اس تاریخی اجلاس میں شریک ہوئے جس میں صدر نشیں دادا بھائی نوروجی نے ہندوستان کے لیے حکومتِ خود اختیاری کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اس اجلاس میں قائد اعظم نے مسلمانوں کے وقف علی الاولاد کے مسئلہ سے متعلق قرارداد پر اپنی تقریر کیاور حکومت خود اختیاری کی قرارداد میں ایک ترمیم پیش کی۔١٩٠٧ء میں جب کانگریس میں انتہا پسند اور اعتدال پسند رویہ رکھنے والے اراکین میں تنازعہ پیدا ہوا تو محمد علی جناح کی ہمدردیاں اعتدال پسندوں کے ساتھ تھیں۔ ١٩٠٩ء میںببمئی کے مسلم حلقے سے لیجیسلیٹو کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوئے ۔ ١٩١٣ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شامل ہونے کے لیے قائد اعظم کو دعوت دی گئی۔ اس کے بعد جلد ہی وہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر صف اول کے رہنما بن گئے۔ اسی دوران ١٩١٨ء میں رتن بائی جن کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ، سے شادی انجام پائی۔قائد اعظم نے ١٩١٦ء میں میثاق لکھنو کی طرح ڈالی جس کی رو سے کانگریس کو مسلمانوں کے جداگانہ حق نیابت کو ماننا پڑا۔اس طرح مسلم لیگ قائد اعظم کی رہنمائی میں اپنے موقف کا بھرپور اظہار کرنے لگی اور مسلمان اپنے محبوب کے لیے مرمٹنے پر تیار ہوگئے۔
قائد اعظم کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کو سوائے خدائے بزرگ کے کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔انہوں نے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کرکے فرمایا ”اسلام ہمیشہ آزاد زندہ رہا ہے اور اس کے بعد بھی اسے آزاد ہی رہنا چاہیے۔میں آرزو مند ہوں کہ مسلمان اپنے ہاتھ سے چھوڑے ہوئے ایمان کو دوبارہ ہاتھ میں لیں گے اور تحصیل استقلال کے لیے کسی رکاوٹ سے خوفزدہ نہ ہوں، خواہ ایک دنیا ان کی دشمنی پر اتر آئے ۔اس مقصد کے انجام کے لیے اس کے بعد ہمارا شعار یہ تین کلمے ہوں گے ۔اتحاد، ایمان اور تنظیم۔”مسلمانوں نے قائد اعظم کے اس بیان پر پوری طرح عمل کیا اور اس طرح مسلم لیگ کی قوت اس قدر بڑھ گئی کہ ہندو قیادت بوکھلا اٹھی ۔حکومت نے ملک میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا تو محمد علی جناح نے اس کے خلاف بطور احتجاج ٢٨ مارچ ١٩١٩ء کو امپیریل لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔۔٢٥ اکتوبر ١٩٢٠ء کو ہوم لیگ سے بھی مستعفی ہو گئے اور ٢٨ دسمبر ١٩٢٠ء کو کانگریس کا سالانہ اجلاس ناگپور میں منعقد ہوا تو گاندھی کی عدم تعاون تحریک کی مخالفت کی اور اسی بنا پر کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ۔فروری ١٩٢٨ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی۔مارچ ١٩٢٨ء میں انہوں نے نہرو رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔نہرو رپورٹ کا جواب دینے کے لیے اور بطور خاص مسلمانوں کے تحفظ کے لیے قائد اعظم نے ٢٨ مارچ ١٩٢٩ء کو مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ دہلی میں پہلی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔٤ مارچ ١٩٣٤ء کو حافظ ہدایت اللہ کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا مستقل صدر منتخب کرلیا گیا۔اپریل ١٩٣٦ء میں دہلی میں جمیعت العلماء کانفرنس میں شرکت کی اور بر صغیر کے تمام مسلمانوں کو ملک کی آزادی کے لیے متحد و منظم ہونے کی درخواست کی۔ ١٩٣٦ء ہی سے بنگال، پنجاب، کراچی اور مختلف چھوٹے بڑے شہروں کا دورہ کرکے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرکے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے پر راغب کیا جس کے نتیجے میں بر صغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے بینر تلے یکجا ہوگئے اور مسلم لیگ مسلمانان بر صغیر کی سب سے بڑی اور نمائندہ جماعت بن گئی۔٢٣ مارچ ١٩٤٠ء کو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ۔یہاں پر پہلی بار واضح طور پر قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی، منظور کی گئی ۔اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کو آئینی طور پر خود مختار ریاستیں بنا دیا جائے اور یہ علاقے خود مختار سلطنتیں ہوں۔ قراردار پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان میں مزید تیزی آگئی ۔بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقاء کار کی یہ جدوجہد بالآخر رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا اور ٣ جون ١٩٤٧ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔اس منصوبے کو کانگریس کی جانب سے پنڈت جواہر لال نہرو، آل انڈیا مسلم لیگ سے قائد اعظم محمد علی جناح اور سکھوں کی جانب سے سردار بلدیو سنگھ نے قبول کرلیا۔ قائد اعظم نے اس موقع پر اپنے خطاب کے اختتام پر پہلی بار ”پاکستان زندہ باد” کے تاریخی الفا ظ کہے اور پھر ١٤ اگست ١٩٤٧ء کی رات ریڈیو پاکستان لاہور سے پاکستان کی آزادی کا اعلان کردیا گیا۔حصول پاکستان کی اس طویل جدوجہد میں بالآخر منزل پالینے کے بعد قائد اعظم شدید کام اور غور و فکر کے باعث خاصے کمزور ہو چکے تھے ۔ان کی عمر اب بہترسال ہوچکی تھی اور وہ بے حد نحیف و نزار رہنے لگے تھے۔جبکہ ١٩٤٠ء کی دہائی میں انہیں تپ دق کا عارضہ بھی لاحق ہوچکا تھا لیکن ان کے معالج نے قائد اعظم کی ہدایت پر تادم آخر اپنوں اور غیروں سے پوشیدہ رکھا تھا ۔یہ بیماری انہیں اندر سے ختم کرچکی تھی اور اتنا عرصہ بھی وہ محض اپنی مضبوط قوت ارادی کے باعث حیات رہے تھے۔قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد ہی ١١ ستمبر ١٩٤٨ء کو وفات پاگئے۔