... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
پچھلی صدی کا سب سے غیر معمولی سانحہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تھا۔ 3 مارچ 1924 کو ترکی میں خلافت کے خاتمہ کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔لارڈ کرزن نے اس موقع پریہ تاریخی جملہ کہاتھا کہ: ترکی تباہ ہوچکا اور اب کبھی دوبارہ نہیں اٹھ سکے گاکیونکہ ہم نے اس کی روحانی طاقت یعنی اسلام اور خلافت کو تباہ کردیا ہے ”۔ لارڈ کرذن کی پیشنگوئی گزشتہ صدی کے اختتام تک غلط ثابت ہوگئی اور ترکی میں اسلام کی بادِ نسیم چلنے لگی ۔1997ء میں رجب طیب اردوغان نے سیرت شہر کے ایک جلسہ عام میں کہا تھا :گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں ، مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں ، صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں ،کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انہیں جیل جانا پڑا، مگر 2003ء میں رجب طیب اردوغان نے اسی حلقہ ٔ انتخاب سے 85فیصد ووٹ حاصل کیے اور وزیر اعظم بن گئے اور 2014سے صدارتی نظام نافذ کیا نیز ہنوز صدر ہیں.۔اس طرح ترکی میں اسلام کالوٹ آنا مغرب کی بہت بڑی شکست تھی۔ ترکی میں تختہ پلٹنے کی بھی کئی بار کوشش کی گئی مگر بفضلِ تعالیٰ وہ سب ناکام رہیں اور علامہ اقبال کے اس افسوس کاازالہ ہوگیا کہ جس کا اظہار انہوں نے ا س شعر میں کیاتھا
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
خلافت عثمانیہ کے ساتھ ہی روس میں ایک الحادی اشتراکی انقلاب بھی نمودار ہوا۔ اس کے جواب میں سرمایہ داروں نے بھی لادینیت کے آگے سپر ڈال دی۔اس طرح دنیا بھر میں دین بیزاری اور قوم پرستی کی زبردست لہر چل پڑی ۔اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اخوان المسلون اور جماعت اسلامی جیسی تحریکیں اٹھیں لیکن امریکہ اور سویت یونین کی دو قطبی دنیا میں مسلم ممالک تقسیم ہوگئے ۔مسلمانوں کے طاقتور ممالک مثلاً مصر ، شام اور عراق اشتراکیت کا ترنوالہ بن گئے جبکہ ایران ، سعودی عرب وغیرہ امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے باوجود دشمن بنے رہے کیونکہ شاہ ایران اسلام کا مخالف اور شاہ فیصل حامی تھے ۔ اب صورتحال الٹ چکی ہے ۔ ایران اسلامی اقدار کا پاسدار ہے اورسعودی عرب میں شکیرہ کارقص ہورہا ہے لیکن حماس اور فلسطین پر دونوں کا موقف یکساں ہے ۔ ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو اس کے خلاف امریکہ اور روس دونوں نے عراق کو اس سے برسرِ پیکار کردیا ۔ اس طویل جنگ میں عراق سمیت مغربی قوتیں ایرانی انقلاب کو سبوتاژ کرنے میں پوری طرح ناکام رہیں۔
مشرقی یوروپ کو اپنی گرفت میں لینے کے بعد سوویت یونین نے افغانستان کی طرف پیشقدمی کی اورمجاہدین اسلام سے شکست کھا کروہ بے نام نشان ہوگیا ۔ دنیا یک قطبی ہوگئی تو امریکہ اپنا نیو ورلڈ آرڈرنافذ کرنے کا خواب دیکھنے لگا مگر ٩١١ کے حملے نے اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اپنی بھڑاس اتارنے کے لیے اس نے افغانستان پر چڑھائی کی اوربالآخررسوا ہوکر بھاگ کھڑا ہوا۔ افغانستان میں دال نہیں گلی تو امریکہ نے صدام حسین پر عمومی تباہی کے اسلحہ کا جھوٹا الزام لگا کر حملہ کردیا۔ وہاں سے بھی اسے رسوا ہوکر بھاگنا پڑا مگر عراق میں ایران نواز حکومت کا اقتدارکا قیام اس کا بڑا خسارہ تھا۔ اس صدی کی ایک بہت بڑی تبدیلی عرب بہار تھی ۔ 2010 میں تیونس سے شروع ہونے والا احتجاج مختلف ممالک میں پھیل گیا اور بہت سارے آمر اقتدار سے بے دخل کر دئیے گئے ۔
مصر میں ڈاکٹر محمدمرسی کی کامیابی نے ثابت کردیا کہ ملک کے عوام اسلامی تحریک کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ 2012ء میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے موقع پرصدر ڈاکٹر محمد مرسی شہید نے کہا تھا کہ ‘غزہ کوتنہا نہیں چھوڑیں گے ‘۔ صدر مرسی کایہی جملہ غاصب صہیونیوں کے قلب میں تیر کی مانندپیوست ہوگیا۔انہوں نے اس وقت اپنے وزیراعظم ہشام قندیل کو ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ غزہ بھیجا تھا جس میں مصری وزراء اور مختلف ممالک کے سفیر شامل تھے ۔رفح گذرگاہ کو کھول کرعرب اور عالمی امدادی کارکنوں کو غزہ تک رسائی کی اجازت اور سہولت فراہم کی تھی۔ غزہ میں طبی امداد نیز اسپتالوں میں ادویات اور عملے کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی۔ مغرب کے لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا اس لیے فوجی بغاوت کے ذریعہ انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا گیا ۔ آج اگرمصر میں اخوان کی حکومت ہوتی تو غزہ کی یہ صورتحال نہیں ہوتی اور اسرائیل یہ جرأت نہیں کرپاتا۔
امریکہ نے جب یہ دیکھا کہ اب وہی ایک سپر پاور رہ گیا ہے تو مسلم ممالک کو اسرائیل کا دوست بنا کر فلسطینی مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور یمن میں جنگ چھیڑ کر ایران کے ساتھ سعودی عرب اور امارات کو لڑایا گیا لیکن اس سال مارچ میں چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کرادی ۔ اس طرح پھر سے دو قطبی دنیا وجود میں آگئی اورحماس کے حملے نے سو سال بعد سارے مسلم ممالک کو ایک کیمپ میں جمع کردیا ۔ عالمی سطح پر اور اسلامی دنیا میں یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے ۔اس میں خیر کے بڑے امکانات ہیں۔ اس کی جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ دنیا پر مغرب کے 500 سالہ تسلط کا دور اب ختم ہو رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال کی اس پیشنگوئی کے درست ہونے کا وقت آگیا
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا عالمِ پیر مررہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنادیا تھا قمار خانہ
یوکرین کے معاملے میں مغربی دنیا متحد ہوکر امریکہ کی پشت پناہی کررہی ہے اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روس بغضِ معاویہ میں مغربی تسلط کے خاتمے کی بشارت دے رہا ہے لیکن اگر امریکی عوام بھی اسرائیل کے خلاف حماس کی حمایت کرنے لگیں تو اسے نصرتِ الٰہی نہیں تو کیا ہے؟ ہارورڈ ہیرس یونیورسٹی کی جانب سے رواں ہفتے میں ایک سروے کیا گیا اور اس میں ایسے چونکانے والے انکشافات ہوئے کہ جن کا تصور بھی محال تھا ۔ اس جائزے کے مطابق امریکی نوجوانوں کی اکثریت نہ صرف اسرائیلی ریاست کے خاتمے بلکہ حماس کی حکمرانی کو درست سمجھتی ہے ۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف امریکی حکومت دو ریاستی حل کی بات کررہی ہے اور اس کو بھی اسرائیل مسترد کردیتا ہے ۔ امریکی انتظامیہ جب غزہ پر الفتح کی حکومت کا مشورہ دیتا ہے تو اسرائیل چراغ پا ہوجاتا ہے لیکن نوجوان عوام کا حال یہ ہے کہ وہ اسرائیل کا نام و نشان مٹا کر حماس کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ رائے عامہ کی یہ عظیم تبدیلی حماس کے عظیم جہاد و استقامت کا انعام ہے ۔
ہارورڈ یونیورسٹی کا سروے کہتا ہے کہ 18 برس سے 24سال کی عمر کے 51فیصد امریکی شہریوں نے اسرائیلـفلسطین تنازع کے انقلابی حل کی حمایت کی، جس میں صیہونی ریاست کا خاتمہ اور اس کی جگہ فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کروہ فلسطین میں حماس کو حکمراں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس اسی عمر کے لوگوں میں دو ریاستی حل کی حمایت کرنے والے صرف 32 فیصد لوگ ہیں۔ ان کے علاوہ 17 فیصد لوگوں نے یہ احمقانہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دوسرے عرب ممالک کو فلسطینیوں کا علاقہ دے دیاجانا چاہئے ۔ امریکی حکومت اور اسرائیل نواز میڈیا نے حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دیا اور اس سے متعلق بے شمار افواہیں پھیلائیں مذکورہ سروے نے اس کی ہوا نکال دی ۔ اس کے مطابق 18سے 24سال کی عمر کے 60فیصد نوجوانوں نے حماس کے 7اکتوبر کو ہونے والے حملے کا دفاع کیا اور اس کیلئے فلسطینیوں کے مصائب کو جواز بنایا۔ یہی بات تو روس کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہی تھی۔
اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے یہ نعرہ لگا کر امریکی گودی میڈیا نے اس کے تمام مظالم کو جائز ٹھہرادیا مگر یہ دلیل نوجوانوں کو جھانسا دینے میں ناکام رہی ۔ سروے میں یہ حقیقت ابھرکر سامنے آگئی کہ 67فیصد نوجوان امریکیوں کے خیال میں صیہونی یہودی ظالم ہیں جبکہ مجموعی طور پر 73فیصد امریکی اس موقف کے مخالف ہیں۔ اس جائزے نے نوجوان اور بوڑھے امریکیوں کے درمیان اسرائیل یا حماس کی حمایت پر شدید تقسیم واضح کردیا مگر اس کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ امریکہ کی آئندہ نسل اسرائیل کے بجائے حماس کی حامی ہے ۔ یعنی اگر چہ مجموعی طور پر 80فیصد سے زائد امریکی اسرائیل کے حمایت کرتے ہیں مگر 18تا 24برس کی عمر کے نوجوانوں میں پچاس فیصد سے زیادہ حماس کے حامی ہیں۔عام سوچ تو یہ ہے کہ رائے عامہ کی تبدیلی صرف اور صرف سفارتکاری یا تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ رونما ہوتی ہے مگریہ چشم کشا انقلاب تو جہاد و مزاحمت کے بطن سے نمودار ہورہا ہے ۔
نامساعد حالات میں مجاہدین غزہ کی امریکی نوجوان نسل میں پزیرائی اور اسرائیل کی رسوائی قرآن حکیم کے ان آیات میں مردہ سے زندہ کو نکالنے کی تفسیر بیان کرتی ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے :”کہو! اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے ، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے ، تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تُو ہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اورمُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ” کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ مجاہدین غزہ کی اسرائیل کے خلاف یہ مزاحمت امریکہ کی نئی نسل کے قلب و ذہن کو اس طرح تبدیل کردے گی مگر آگے ارشادِ حق ہے :اور(اللہ تعالیٰ) جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے (اپنی نوازشات سے ) بہرہ اندوز کرتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔