... loading ...
ریاض احمدچودھری
حماس کے ترجمان نے لاہور میں سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حماس القدس قبلہ اول کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔7اکتوبر کو حماس کا طوفان اقصیٰ سے اسرائیل اور اْس کے سرپرست امریکا کو پیغام مل گیا کہ اہل فلسطین اپنی سرزمین کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ ہم کسی صورت غزہ فلسطین کو نہیں چھوڑ یں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔امریکا اور اسرائیل دنیا میں تنہا اور تمام حق پرست اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔مسئلہ فلسطین اور کشمیر کی حمایت بانی پاکستان کے اصولوں کا بنیادی جز ہے۔ اسرائیل سے تعلقات قائد اعظم اور پاکستان کے نظریہ سے انحراف ہے۔ فلسطین سے متعلق قائد اعظم کا دوٹوک موقف موجود ہے جس میں اسرائیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوریاستی حل منظور نہیں۔ پاکستان کو چاہیے وہ قائد اعظم کے موقف کیساتھ کھڑا رہے۔ دو ریاستی حل پر بات کرنے سے خاموشی زیادہ بہتر ہے۔ عالمی فورمز پر فلسطینیوں کے حق میں اسرائیل کیخلاف پاکستان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
جناب خالد قدومی کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام نے شعوری طور پر فلسطین کے حق میں اپنے تئیں آواز بلند کی،تاہم سرکاری سطح پر باہمی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ فلسطینی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اہل پاکستان نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرکے ہمارے حوصلے اور بلند کردیے ہیں۔ پاکستان محض دھمکی دیکر اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے شاہ فیصل کا حوا لہ دیتے ہوئے کہا 1973 میں سعودی بادشاہ نے صرف دھمکی دی اور اس کے اثرات نمایاں ہوئے۔پوری دنیا میں حق پرست لوگ اسرائیل امریکا کے خلاف سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں جو کہ ہماری اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور خارجی فتح کے مترادف ہے۔
اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ نظریاتی جنگ ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے ایک لمبے عرصے کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل روک دیا ہے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار ابن غفیر نے کھلے عام اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلسطینیوں کو جینے کا کوئی حق نہیں، یہ استحقاق صرف اسرائیل کو حاصل ہے۔ اسی طرح اسرائیلی نصاب میں یہ پڑھایا جاتا ہے اہلیان غزہ کو جلانا اور اسرائیلیوں کو باقی رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے 7 اکتوبر کا حملہ اپنی نوعیت یعنی نظریے نہیں بلکہ اپنی شدت کی وجہ سے سرپرائز تھا ورنہ عرصوں پر محیط یہ جنگ نظریاتی جنگ ہے۔
ڈاکٹر خالد قدومی نے جنگ کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا سفارتی سطح پر دنیا اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے تقسیم سے متعلق قرار داد میں 45 فیصد حصے پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جبکہ 55 فیصد پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی منظوری دی۔ قانونی طورپر ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا جبکہ اس کے برابر قتل عام جاری رہا۔ 1991 میں اسرائیل نے خودساختہ طورپر فلسطین کے ٹکڑے کیے۔ 80 فیصد حصے پر مکمل طور پر اسر ائیل کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ باقی 20 فیصد میں القدس کو آن ٹیبل ہی نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح بقیہ حصے کو بھی مزید تین حصوں میں تقسیم کیا، اگر اس کے بعد بھی حماس مزاحمتی راہ نہیں اپناتا تو کیا کرتا؟
طوفان الاقصیٰ کی تیاری بہت پہلے سے جاری تھی۔ یہ طوفان دراصل 2021 میں ہونیوالے سیف القدس کی توسیع ہے جو 5 دن تک جار ی رہی۔ 7 اکتوبر یوم کپور کی وجہ سے محض فیلڈ سلیکشن تھی۔ اسرائیل کی طرف سے بچوں اور عام لوگوں پر بربریت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسرائیل حواس باختہ ہو کر جنگ مکمل طور پر ہار چکا ہے۔ ہسپتالوں پر ٹینک چڑھانے سے معلوم ہوتا ہے وہ اندر سے کتنا خوفزدہ ہے۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔حماس کے ترجمان نے بتایا کہ 2018 میں حماس کی پالیسی میں تبدیلی محض ایک تجویز تھی، اس وقت ہم نے یہ بات سامنے رکھی کہ اگر دو ریاستی حل پر اہلیان فلسطین نے رضامندی کا اظہار کیا تو ہم بھی اس کی پشت پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، تاہم، عوام نے ہمارا ساتھ دیا جبکہ 7 اکتوبر سے پہلے خود اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کی کوئی بات سامنے نہیں تھی۔ حماس نے حملہ کر کے ہزاروں افراد اور بچوں کو شہید کرنے کیلئے اسرائیل کو جواز فراہم کرنے کے سوال پر انہوں نے جواباً کہا کیااس سے پہلے آئے روز فلسطینی شہید نہیں ہو رہے تھے؟ ہم سفارتی، قانونی اور عالمی سارے راستے دیکھ چکے ہیں، جس ماں کے بچے شہید ہوئے کیا ہم ان سے پوچھ سکتے ہیں جہاد کی کیا ضرورت ہے؟، اسرائیل کا تو تصور ہی یہ ہے سارا فلسطین اسکاہے،کیا سارے رستوں پر ناکامی کے بعد جہاد کے سواء کوئی راستہ باقی رہتا ہے؟
غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک 20ہزار سے زائد بچے، خواتین، بزرگ اورجوان شہید ہوگئے، جب کہ اہل فلسطین کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں۔ حماس نے اسرائیلی فوج اور اْس کی عسکری قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کا مغربی میڈیا ذکر نہیں کررہا ہے لیکن صہیونی میڈیا اپنے ساڑھے چار ہزار فوجی افسروں اور جوانوں کی ہلاکت کا دبے انداز میں ذکرکررہا ہے۔ اسرائیل کے عوام نیتن یاہو کے خلاف ہوگئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔