... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیام پاکستان کے ابتدائی گیارہ سالوں میں سات وزرائے اعظم کے برسراقتدار آنے، نو سال تک ملک کا آئین تشکیل نہ پانے اور بالآخر ملک کے قیام کے محض گیارہ سال بعد خدا خدا کر کے بننے والے 1956 کے پہلے آئین کی معطلی اور ملک میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی اور جمہوری اداروں کی کمزوری اور عدم استحکام کا آغاز ہو گیا تھا۔
جمہوریت کیلئے انتخابات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔وطن عزیز میںآئند ہ برس ہونے والے انتخابات زیر بحث ہیں ۔ کچھ لوگ موجودہ طریقہ انتخاب کو تمام خرابیوں کا ذمہ ٹھہراتے ہوئے اسے بدلنے کے خواہاںہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا وہ کرپٹ اور فرسودہ انتخابی نظام ہے جس کے باعث ہماری سیاست اور جمہوریت گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے چند لوٹوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہتی ہے۔ ان ہی لوٹوں کی سیاسی قلابازیوں کو دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کا مذاق اڑتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے باپو گاندھی جی اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہوتے ہیں۔ الیکشن کمشن کی تشکیل اس کے اختیارات اور مختلف انتخابی مراحل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کی تجاویز اپنی جگہ ہیں لیکن میرے نزدیک طریق انتخاب ان سب میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم متناسب طریق انتخاب کو اپنا لیں تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخاب اپنانے کے لئے توانا آواز جماعت اسلامی کی ہے، اس کے امیر محترم سراج الحق ہر فورم پر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ مافیا اور الیکٹبلز سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوں۔
متناسب نمائندگی کے طریق انتخاب میں انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنے اپنے نمائندگان کی فہرست بنا کر الیکشن کمشن کو پیش کر دیتی ہے اور پھر ووٹ کسی فرد کے بجائے ان کی جمع کردہ فہرست کو سامنے رکھ کر جماعتوں کو ڈالے جاتے ہیں۔ جو جماعت جتنے ووٹ لے گی اس کے تناسب سے اسے صوبہ میں اور مرکز میں سیٹیں مل جائیں گی۔ مثلاً اگر اسمبلی کے انتخابات میں دو کروڑ ووٹ ڈالے جائیں تو ایک سیٹ ایک لاکھ ووٹ پر بنے گی اس طرح جو جماعت بیس لاکھ ووٹ لے گی اسے بیس اور جو پچاس لاکھ ووٹ لے گی اسے پچاس سیٹیں ملیں گی اور ہر جماعت کی فراہم کردہ فہرست میں سے اوپر کے اتنے ممبر منتخب قرار پائیں گے۔ اس طرح تمام بڑے بڑے نقطہ ہائے نظر چاہے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں ان کی صحیح نمائندگی ہو جاتی ہے اور پارلیمنٹ قومی رائے عامہ کی سچی تصویر پیش کرتی ہے۔
متعدد جمہوری ممالک میں یہ طریقہ رائج ہے اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس طریق انتخاب میں یک رکنی حلقہ انتخاب کے برعکس ووٹ ضائع نہیں ہوتے بلکہ اکثر و بیشتر ووٹوں کو نمائندگی مل جاتی ہے اور جو حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر کے بنتی ہے وہ حقیقی طور پر ووٹروں کی اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے جبکہ یک رکنی حلقہ انتخاب کے ذریعے بننے والی حکومتیں اکثر و بیشتر اقلیت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس طرح یہ طریق انتخاب زیادہ منصفانہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ طرز انتخاب اس وقت دنیا کے80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں نافذ العمل ہے، جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، ناروے، ڈنمارک ،جرمنی، فرانس، ہالینڈ قابل ذکر ہیں۔ اس کا فائدہ یہ کہ اس طریقہ انتخاب میں پیسہ کا کردار بہت حد تک محدود ہو جائے گا، ووٹ شخصیت کے بجائے پارٹی کو پڑے گا، کسی بھی پارٹی کے لئے پورا ملک یا صوبہ بھی انتخابی حلقہ ہو سکتا ہے، انتخابات پارٹی نشان پر ہوں گے،پارٹی قائدین اپنے منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں شریک ہوں گے،اس طریقہ انتخاب میں صرف وہی سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی جو الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیں، جن کے باقاعدہ ممبرز ہیں جو اپنا دستور اور منشور رکھتی ہیں، جن کے فنڈز کا حساب کتاب بھی شفاف ہے، یہ نظام سب سے زیادہ جمہوری ہے، اس میں پارلیمان میں نمائندگی کی شرط صرف اور صرف اکثریت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ایوانوں میں پڑھا لکھا طبقہ بہت کم ہے۔ زیادہ تر ارکان کا تعلق جاگیرداروں، صنعتکاروں اوربڑے بڑے سیاسی گھرانوں سے ہے۔ انہیں صرف اپنے اکاؤنٹ بھرنے کی فکر ہے۔ ان کے نزدیک عوام صرف ایک کٹھ پتلی ہے جسے ہر پانچ سال بعد وعدوں پر بہلالیا جاتا ہے اور پھر پانچ سال انگلیوں پر نچایا جاتا ہے۔ ان افراد کو ایوان میں ہونے والے قانون سازی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ زیادہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے سبب ایوان میں پیش ہونے والا کوئی بھی بل، قانون یہ بخوبی پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے صرف ہاتھ اٹھا کربل پاس کر دے دیتے ہیں یا منسوخ کر دیتے ہیں۔ انہیں کچھ نہیں پتا ہوتا کہ بل میں عوام و ملک کی بھلائی کیلئے کیا ہے۔ کیا یہ قانون اسلام یا آئین سے متصادم تو نہیں۔ حقیقی جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ پورے نظام میں شفافیت ہو ۔ہمارے یہاں کوئی شفافیت یا کھرا پن نہیں جبکہ مغربی اور جمہوری ملکوں میںمکمل شفافیت ہے کہ وہاں نمائندگان کیا کیا مراعات لے رہے ہیں، ان کے اخراجات کیا ہیں؟ اثاثہ جات کیا ہیں؟ اختیارات و کارکردگی کیا ہے؟ مغربی ملکوں کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس پر ہر ایم پی اے اور ایم این اے کے بارے میں مکمل معلومات دست یاب ہوتی ہیں۔ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ خود دیکھ سکے کہ اس کے حلقے کے ایم این اے نے کیا کمایا، کتنی مراعات لیں، کیا اخراجات کیے اور کیا اثاثہ جات جمع کیے۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کو ان معلومات تک رسائی ہے؟
پاکستان میں جمہوریت کا جو ماڈل ہے اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظم پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو، جس نظام میں شہریوں کو مساوی حقوق و مواقع میسر نہ ہوں۔ہمارے ہاں متناسب نمائندگی کی جمہوریت چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔