وجود

... loading ...

وجود

پناہ گزین سے عالمی چیمپئن بننے والی بہادر لڑکی

پیر 18 دسمبر 2023 پناہ گزین سے عالمی چیمپئن بننے والی بہادر لڑکی

ڈاکٹر جمشید نظر

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق شام کے ساڑھے سات لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو نوآبادی کے حوالے سے شدید ترین ضروریات درپیش ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی شام سے تعلق رکھنے والی کم عمرپناہ گزین لڑکی یسریٰ مردینی کو اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی سب سے کم عمر خیرسگالی سفیر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔یسریٰ مردینی کویہ اعزاز اس کی بہادری پر ملا ہے ۔سن 2015میں شام کے جنگ زدہ ماحول سے جان بچا کر یسریٰ مردینی اپنی چھوٹی بہن سارا مردینی اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ سمندر کے راستے یورپ کی طرف نکلیں تو سمندر میں ان کی کشتی کو حادثہ پیش آگیا، کشتی کا انجن بند ہوگیا اور اس کو چلانے کے لئے کوئی چپو بھی نہیں تھا،دور تک کوئی ساحل بھی نظر نہیں آرہا تھا اور کشتی میں سواربالغ افراد میں سے کسی کو بھی تیراکی نہیں آتی تھی اور تیراکی آتی بھی ہوتی تو وہ سمندر کے بیچوں بیچ کھڑی کشتی کو آگے کیسے بڑھا سکتے تھے۔کشتی میں سوارکم عمر لڑکیوںیسریٰ اور اس کی بہن ساراکو تیراکی آتی تھی ۔دونوں بہنوں نے سمندر میں چھلانگ لگائی اورتیراکی کرتے ہوئے کشتی کو آگے کھینچنا شروع کردیا ۔کم عمر لڑکیوں کا کشتی کوکھینچ کر آگے بڑھانا ایک ناقابل یقین بات تھی بہرحال یسریٰ اور سارا کئی گھنٹے کشتی کو آگے دھکیلتی رہیں ۔آخرکار ان کو ساحل نظر آگیادونوں بہنیں کشتی کو کھینچتے کھینچتے بے حال ہوچکی تھیں لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور کشتی کو ساحل پر پہنچا دیا۔ اس طرح دو چھوٹی بچیوں کی وجہ سے کشتی میں سوار اٹھارہ افراد کی زندگیاں بچ گئیں۔اس کارنامہ پر یسریٰ کو یواین ایچ سی آر کی خیر سگالی سفیر مقرر کیا گیا۔یہی نہیں یسریٰ مردینی نے سن2016 ریو اولمپکس اورسن2020میں ٹوکیو اولمپکس میں بھی حصہ لیا اور تیراکی کی عالمی چیمپیئن بھی بن گئیں ۔ پناہ گزین بچی یسریٰ نے جس طرح اٹھارہ افراد کی جان بچائی اور پھر عالمی چیمپیئن اور عالمی سفیر بنی، یہ واقعی پناہ گزین افراد کے لئے ایک بہت بڑی مثال ہے۔ اس کی حیران کن داستان پر نیٹ فلکس کی جانب سے ایک ڈاکیومنٹری فلم ”دی سویمر” بھی بنائی گئی جس کی نمائش نیو یارک میںاقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کی گئی ۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے آئی او ایم کی رپورٹ کے مطابق سن2014سے سن2022تک دنیا بھر میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر خطرناک سفر کرنے والے چالیس ہزار سے زائد افراد مہاجرین ہلاک ہوچکے ہیں۔جو تارکین وطن قانونی طریقہ اپنا کر کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں ان کی ہلاکتوں اور گمشدگی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ تارکین وطن کسی بھی ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔تارکین وطن معاشی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں پہلے درجے کے شہریوں کی حقارت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق تارکین وطن اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کی تلاش اورتعلیم کے حصول کے لئے کسی دوسرے ملک میں جابستے ہیں۔
دنیا میں تارکین وطن کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے4 دسمبر 2000 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر کو بین الاقوامی تارکین وطن کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیاتاکہ تارکین وطن کی خدمات اور حقوق سے متعلق شعورکو اجاگر اور عالمی سطح پر تارک وطن کو درپیش مسائل کا ازالہ کیا جاسکے۔اس کا تھیم ہے ”آج عمل کریں”۔اس سے قبل 1990 میں ، اسمبلی نے تمام تارکین وطن کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کو اپنایا۔ 14 اور 15 ستمبر 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی ہجرت اور ترقی کے بارے میںعالمی سطح کے ایک ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جس میں 132 ممالک نے حصہ لیا۔اس موقع پرتمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی نقل مکانی ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے اور یہ اصل ممالک اور منزل مقصود کے ممالک کی ترقی میں مثبت شراکت دے سکتا ہے لیکن اس کے لئے ٹھوس اور پائیدار پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے افراد اپنی پسند سے اور بہت سے لوگ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی خاطر ہجرت کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2019 میں ، عالمی سطح پر تارکین وطن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 272 ملین تھی جو 2010 کے مقابلے میں 51 ملین زیادہ تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق سن2020 ء میں تقریباً 281 ملین افراد بین الاقوامی تارکین وطن تھے جو کہ عالمی آبادی کا 3.6 فیصد ہیں۔پاکستان سے 1960ء کی دہائی میں اپنا ذریعہ معاش بہتر بنانے کے خیال سے بڑی تعداد میں لوگ ترک وطن کر کے یورپ و دیگر ترقی یافتہ علاقوں میں آباد ہونا شروع ہوئے۔حالیہ جائزے کے مطابق تاحال سمندر پار پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک کروڑسے زائد ہے جو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں زیادہ ہے۔ اس کے بعد برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یونان، اٹلی، اسپین، روس، فرانس، جرمنی، ناروے، ڈنمارک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائشیا اور جنوبی افریقہ میں پاکستانی ورکرز اور تارکین وطن پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ورکرز کو دیار غیر میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنا وطن اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ملازمت کی تلاش یا اچھی زندگی کی تلاش میں دیار غیر میں پناہ لیتے ہیں ان میں زیادہ تر کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر