... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، کہتے ہیں کہ بیماری میں انسان چڑچڑا زیادہ ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم جب بھی بیمار ہوتے ہیں تو بیماری میں آپ لوگوں سے دور رہتے ہیں کیوں کہ چڑچڑا انسان تو صرف منفی باتیں اور مایوسی کا اظہار ہی کرتا رہتا ہے، جب کہ ہمیں اعلیٰ سطح پر بتایاجارہا ہے کہ مثبت خبریں پیش کی جائیں۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے جس کا بلڈ گروپ ہی ”اونگیٹیو” ہو وہ بی پازیٹیو کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔۔ہم جب ٹی وی آن کرتے ہیں یا اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم سب بیمار ہی لگتے ہیں، انتہائی چڑچڑے پن کا شکار، بھلا بتاؤ بیمار آپ صحافی لوگ ہیں اور حکومت سے بیزاری کااظہار کیا جارہا ہے، حکومت پر تنقید کی جارہی ہے، میڈیا والے پہلے اپنا اپنا علاج کرائیں، جیسے ہم نے اپنا علاج کرالیا ہے، اب دوائیوں کا کورس چل رہا ہے اور ہمارے اندر سے چڑچڑاپن ختم ہوتا جارہا ہے جو چیز پہلے بری لگتی تھی،اب اچھی لگنے لگی ہے، پہلے بات بات پر غصہ آجاتا تھا اب سب کچھ ٹھیک ہے۔غصہ تو ایسے غائب ہوگیا جیسے خان صاحب کا نام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے غائب ہوچکا ہے۔
ٹرین پوری رفتار کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی مگر ایک اداس چہرہ شخص مسلسل کھڑکی کے باہر جھانک رہا تھا،چہرے سے چڑچڑاپن بھی چھلک رہاتھا،اتنے میں اس کی گود میں بیٹھا ہو بچہ اٹھا اور ٹرین کے دروازے کے پاس جاکر کھیلنے لگا، ٹکٹ چیکرجو کہ اس وقت قریب آچکا تھا اس نے بچے کے باپ کو جھنجھوڑا اور کہا کہ اپنے بچے کو سنبھالو بھائی!کہیں کوئی افسوس ناک حادثہ پیش نہ آجائے،باپ نے بڑی مشکل سے اپنا سر اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ افسوس ناک حادثہ اورکیا ہو گا۔ تین چار ماہ پہلے میری بیوی مجھ سے ناراض ہوکرمیکے چلی گئی تھی وہاں وہ شدید بیمار ہوگئی ہے اب وہ ہسپتال میں داخل ہے۔پھر باپ نے ایک طرف بیٹھے تین خستہ حال بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب یہ بھی میرے بچے ہیں،میں ان بچوں کے ساتھ ان کی بیمار ماں کو دیکھنے جا رہا ہوں،مگران بچوں نے میری جان وبال بنادی ہے ایک لڑکے نے کھیلتے ہوئے کھڑکی میں ہاتھ دبا کر اپنی انگلی زخمی کر لی ہے۔دوسرے نے کھیلتے ہوئے میری جیب سے بٹوہ نکال لیااور پھر اسے گاڑی سے باہر پھینک دہا اور تیسر ا ظالم ٹکٹیں چبا گیاہے جناب اب بتائیں میں کروں،آپ کو ٹکٹیں کیسے چیک کرواؤں؟؟۔کہاں سے لاؤں ٹکٹیں؟؟ رنجیدہ باپ نے چڑچڑے پن سے کہا۔۔ آپ مجھے معاف کردیں گے مگر جو ستم ظریفی میرے ساتھ تقدیر نے کی ہے اس کا کیا کرینگے۔۔ ٹکٹ چیکر نے پوچھا،آپ اتنے چڑچڑے کیوں لگ رہے ہیں، ایزی ہوجائیں، اللہ بہتر کرنے والا ہے۔۔۔ باپ نے جواب دیا، افراتفری میں ہم اس وقت غلط ٹرین پر سوار ہوگئے تھے اور اس وقت ہم اسی ٹرین میں اپنی منزل سے مخالف سمت سفر کر رہے ہیں۔
خاتون خانہ نے کہا۔۔ ڈاکٹر صاحب میرے شوہر نے غلطی سے پیراسٹا مول کھالی ہے بتائیں میں کیا کروں؟ڈاکٹر نے مسکرا کرجواب دیا۔۔ آپ بس اپنے شوہر سے ایسی باتیں کریں جس سے اسکے سر میں درد ہو جائے تاکہ گولی ضائع نہ ہو۔۔ڈاکٹر نے جب شوہرسے کہاکہ۔۔اپنی بیوی کو پانی دینے سے پہلے ابال لیا کریں تو شوہر نے خوش ہوکر پوچھا۔۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابالنے سے بیگم مرے گی تو نہیں نا!!! ہمارے بہت ہی پیارے دوست ڈاکٹر کے پاس گئے، ڈاکٹر نے پوچھاکیا تکلیف ہے، وہ بولے سینے میں درد ہورہا ہے، ڈاکٹر نے پوچھا، سگریٹ پیتے ہو؟ وہ بولے، ہاں لیکن گولڈلیف منگوانا۔۔ہمارے ایک دوست کی بیگم صاحبہ کی یادداشت بہت کمزورتھی، علاج کیلئے ڈاکٹر بلوایاگیا۔۔جب ڈاکٹر دوا دے کر چلا گیا تو تھوڑی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی پوچھا گیا کون ہے ؟۔۔ملازم نے آکر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنا بیگ بھول گئے تھے،لوکرالوعلاج۔۔مال روڈ کے ایک نجی اسپتال میں ڈاکٹر نے مریض نے کہا۔۔اس وقت یہ اندازہ لگانا کہ تمہیں کون سی بیماری ہے ذرا مشکل ہے۔ میرے خیال میں یہ نشے کی وجہ سے ہے۔جس پر وہ مریض سیٹ سے یہ کہتے ہوئے اٹھا۔۔”بہت اچھا جناب !میں اب اس وقت آؤں گا جب آپ نشے میں نہیں ہوں گے ”۔۔۔نجی اسپتالوں میں تو مسیحا کسی قصاب سے کم نہیں ہوتے، بیمار اسپتال کے گیٹ سے گھسا اور اس کی کھال اتارنے کیلئے چھریاں تیز کرلی گئیں، کسی بھی نجی اسپتال میں کون سا ایسا مرض ہے جس کا وہ علاج نہیں کرسکتے،اگر کوئی غلطی سے یہ بھی کہہ دے کہ ۔۔اس بیماری سے تو عاجز آگیا ہوں،اب جی چاہتا ہے کہ خودکشی کرلوں۔۔تو آگے سے نجی اسپتال کا ڈاکٹر کہے گا۔۔ نہ نہ تم کیوں زحمت کرتے ہو، آخر میں کس لئے ہوں۔۔پرانے وقتوں کا ایک واقعہ بھی سن لیں، ایک مرغا دیوار پر بیٹھا اپنے بیمار مالک کو دیکھ رہا تھا۔۔اس کی بیوی اس کا سردبارہی تھی اور کہہ رہی تھی، میں شام کو آپ کو دیسی مرغ کی یخنی بناکرپلاؤں گی۔۔مرغااچانک بولا۔۔باجی اک واری پیناڈول دے کے ویکھ لو۔۔ہمارے ایک دوست جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو انہوں نے معائنے کے بعد کہا۔۔ کوئی پرانی بیماری ہے جو اندر ہی اندر آپ کی صحت اور ذہنی سکون تباہ کر رہی ہے،ہمارے دوست ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولے، ششس، آہستہ بولیں ڈاکٹر صاحب، وہ باہر ہی بیٹھی ہے۔۔
ہمارا معاشرہ فرسٹریشن کا شکارہے، ہر شخص کا ایک بوائلنگ پوائنٹ ہے، جس کے بعد وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے، رمضان المبارک میں تو چڑچڑے پن کے مظاہرے جابجا دیکھنے میں آتے ہیں۔ایک دفتر میں فوٹو سٹیٹ مشین خراب ہو گئی۔ مینجر نے قریب سے ایک مکینک بلایا۔ مکینک نے مشین چیک کی اور کہا۔۔ جناب معمولی کیس ہے، صرف سروس چاہیے۔ اپنے کسی آدمی سے کہیں کہ اس کے کتابچے کو دیکھ کر طریقہ سیکھ لے اور سروس کر لے۔ کیونکہ اگر میں نے کیا تو ہزار روپے بل لوں گا۔مینجر بہت حیران ہوا اور اس مکینک سے پوچھا۔۔بھائی آپ کے مالک کو پتہ ہے کہ آپ لوگوں کو کیسے مشورے دیتے ہیں؟ اس سے تو آپ کا کام ہی بند ہو جائے گا۔ مکینک نے اطمینان کہا۔۔ نہیں جناب، مجھے مالک نے ہی یہ کہنے کا بولا ہے، کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ جب آپ لوگ خود سروس کرتے ہیں تو بعد میں مشین میں پانچ دس ہزار روپے کا کام نکلتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پلٹ کر جواب دینا بے شک غلط ہے، لیکن سنتے رہو تو لوگ بولنے کی حدیں بھول جاتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔