وجود

... loading ...

وجود

دہشت گردوں کاعبرتناک انجام قریب

اتوار 17 دسمبر 2023 دہشت گردوں کاعبرتناک انجام قریب

حمیداللہ بھٹی

بظاہر ٹی ٹی پی اسلامی تنظیم ہونے کی دعویدار اور پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذچاہتی ہے مگر یہ تنظیم جس میں اب کئی چھوٹے چھوٹے گروپ بھی شامل ہو چکے ہیں، پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی مملکت کوجس طرح غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے،اس سے اِس کے عزم و اِرادے عیاں ہوتے ہیں کہ اِس تنظیم کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ اِس کے ہرکارے ایسی کٹھ پتلیاں ہیں جو اغیار کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور پاکستان کو مستحکم ،خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے۔
اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ہے مگر تعجب تو اِس بات پر ہے کہ اپنے وطن کے خلاف ہی کچھ لوگ ہتھیاراُٹھاکر لڑرہے ہیں یہ جو بھی ہیں نہ اِن کا اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی یہ وطن کے خیرخواہ ہیں بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں اور اِن سے وہی سلوک ضروری ہے جووطن دشمن عناصراور دہشت گردوں سے ہوتا ہے۔ اطمنان بخش امر یہ ہے کہ ملک کے اسلام پسند طبقے نے متفقہ طور پر ایسے دہشت گردوں کونہ صرف اسلام سے خارج قراردیا ہے بلکہ ملک کے خلاف ہتھیار اُٹھاناجہاد نہیں بلکہ حرام کا فتویٰ صاد ر کیا ہے پاک فوج کے دہشت گردوں کے خلاف عزم و اِرادے اور اسلام پسند طبقے کے فتوے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردوں کاایسا عبرتناک انجام قریب ہے جس کے بعد کسی شرپسند کو مملکت خدادادکے خلاف صف آراہونے کی جرأت نہیں ہو گی۔
غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغانستان کا اقتدار طالبان کو ملنے سے تو قع تھی کہ نہ صرف افغانستان میں امن قائم ہو گا بلکہ خطے میں جاری دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو گا اور جنگ سے تباہ حال یہ ملک معاشی و تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ دہشت گردوں کا مسکن بنناہے ۔یہی وجہ ہے کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو ئیں اورنہ صرف افغانستان میں ابھی تک بدامنی ہے بلکہ ہمسایہ ممالک بھی دہشت گردوں کے نرغے میںہیں جس سے روزگار کے مواقع میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کی بجائے آج افغانستان بھوک و افلاس کا مرکز بنتا جا رہاہے ۔اِس پر ہمسایہ ممالک بھی پریشان ہیں پاکستان خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں آئے روز ایسے حملے ہوتے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کو خاص طورپر نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے پاکستان کی تشویش دوچندہوچکی ہے اوراذہان میں یہ خیال جنم لینے لگا ہے کہ افغان طالبان کی حمایت کرنا کہیں پاکستانیوں کا غلط فیصلہ تو نہیں تھا ؟کیونکہ طالبان نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اقتدار میں آکر یقینی بنائیں گے کہ اُن کی سرزمین دہشت گرداستعمال نہ کر سکیں مگر پاکستان میں پہ درپہ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں ملوث دہشت گردوں نے افغان سرزمین استعمال کی جس پر پاکستان نے احتجاج بھی کیا مگر ابھی تک طالبان نے رسمی جواب دینے کے علاوہ دہشت گردوں کے خلاف کسی نوعیت کی ٹھوس کاروائی سے اجتناب ہی کیاہے جس سے ایسے خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ عین ممکن ہے دہشت گردوں کو کاروائیوں میں طالبان کی معاونت و سرپرستی حاصل ہو ۔
افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک طالبان کے دوبرس قبل اقتدار میں آنے سے امن کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی توقع رکھتے تھے مگراے بسا آرزوکہ خاک شد۔آج ہمسایہ ممالک میں طالبان کے حوالے سے پریشانی پائی جاتی ہے پاکستان مسلسل دہشت گردوں سے برسرِ پیکارہے اور افغان سرزمین خلاف ا ستعمال ہونے پر صدائے احتجاج بلند کر رہا ہے مگرطالبان رویے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُنھیں حالات سے کوئی پریشانی نہیں شاید وہ حالات کو اپنے نکتہ نظر کے مطابق بہتر تصور کرتے ہیں اسی لیے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کُن کاروائی سے گریزاں ہیں بلکہ صدائے احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لاتے حالانکہ حالات یہ ہیں کہ پاکستان جو دہشت گردوں کے خاص طور پر نشانے پر ہے وہ تو دبائو میں ہے ہی ،اب تو چین جو طالبان حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے کے ترجمان نے بھی طالبان کو صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کے ساتھ پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنائیں اور سیکورٹی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ایران اور افغانستان کے تعلقات بھی مدوجزر کا شکار ہیں دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی بے اطمنانی ہے طالبان حکومت کوہمسایہ ممالک کی طرف سے تسلیم نہ کرنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ طالبان کسی کی سننے کے بجائے اپنی منوانے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔ اسی بناپر عالمی تنہائی کا شکار ہیں اگر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور دہشت گردوں کے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں بلکہ اُن کے خلاف کاروائی کریں تو نہ صرف ہمسایہ ممالک کے شوک وشبہات ختم ہو سکتے ہیں اور اُن کا اعتماد حاصل ہو سکتا ہے بلکہ افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری آسکتی ہے جس سے ذرائع آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے، نیز اِس طرح ہمسایہ ممالک کے اشتراک سے خطے کو تجارتی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا سکتا ہے لیکن طالبان کے اطوار سے لگتا ہے کہ انھیں امن اور سیاسی اصلاحات سے نہیں محض اپنے اقتدار سے غرض ہے اوروہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جس سے دہشت گردوں کو کارروائیوں کے لیے سازگار ماحول مل رہا ہے یہ صورتحال کسی طور اچھی نہیں۔ کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت زیادہ دیر دفاعی حکمتِ عملی پر عمل پیرانہیں رہ سکتی اور اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ریاست کااولیں فرض ہے اور ریاستی رٹ کو ریاستی اِدارے ہی یقینی بناتے ہیں۔ اِس لیے جلد بدیرریاستی اِداروں کو سرحدپار بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی طرف آنا پڑے گا ۔
پاکستان کی عسکری قیادت دہشت گردوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کے لیے پُرعزم ہے اِس میں پوری قوم شرپسند عناصر کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے ایک عشرے تک پاکستان کی مسلح افواج نے عالمی ،علاقائی اور اندرونی دہشت گردوں کے خلاف مشکل ترین لڑائی نہ صرف کامیابی سے لڑی بلکہ جدید ترین اسلحے سے لیس دنیا کی طاقتور ترین افواج سے زیادہ بہتر نتائج کم وقت میں حاصل کیے جوپاک فوج کی طاقت، جذبے کے عکاس ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں پاک فوج کے کلیدی کردار سے کوئی صرفِ نظر نہیں کر سکتا ۔اب یہ جو پھر اِکا دُکا واقعات ہونے لگے ہیں اِس کے پسِ پردہ نہ صرف بیرونی ہاتھ ہے بلکہ افغانستان میں دستیاب محفوظ ٹھکانے ہیں، جہاں سے دہشت گردکارروائیاں کرتے ہیں ۔ایسے عناصر کے خلاف نتیجہ خیز اور ٹھوس کارروائی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ دہشت گردی کے زیادہ ترواقعات میں ملوث عناصر کا تعلق افغانستان سے نکلتا ہے۔ اِس لیے وقت آگیا ہے کہ پاکستان نہ صرف افغان طالبان سے دوٹوک بات کرے بلکہ دہشت گردوں کو اُن کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا جائے تاکہ شہریوں کے جان و مال سے کھیلنے والوں کا عبرتناک انجام جلد یقینی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر