... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات ایگزیکٹیو سے کروانے کے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر پنجاب میں انتخابات ایگزیکٹیو سے کروانے کے خلاف دائر درخواستوں پر جسٹس باقر نجفی نے پانچ صفحات پر مشتمل محفوظ تحریری فیصلہ جاری کردیا۔فیصلے میں جسٹس باقر نجفی نے عام انتخابات ایگزیکٹو سے کروانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کیا اور درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کردی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے فائل چیف جسٹس کو ارسال کرتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ انتخابات پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن نتائج تسلیم نہ کریں تو غریب قوم کے اربوں روپے ضائع ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کو صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہے۔ شفاف انتخابات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے امیدواروں اور ووٹرز کو یکساں مواقع فراہم کرنے ہیں ۔موجود صورتحال میں جنرل الیکشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے جس سے جمہوریت کا مستقبل کمزور ہوسکتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے تحریری حکم نامے میں واضح لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بیورورکریسی سے خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کیا جاتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، ہمارے ہاں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے متنازع ہی ہوئے ایک پارٹی جیت گئی تو دوسری نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا تو ملک مزید معاشی مسائل کا شکار ہوگیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن نے مقررہ مدت میں الیکشن نہیں کروائے ۔اب ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں تو انہوں نے بیوروکریسی کو بھی اس الیکشن میں شامل کردیا، جسے لاہور ہائیکورٹ نے معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہی مکمل ذمہ داری دی ہے کہ وہ بیوروکریسی کو اس الیکشن میں استعمال نہ کرے۔
یہ تو تھی تازہ ترین صورتحال اگر ہم قیام پاکستان جائزہ لیں تو 1947 میں کے بعد سے پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری جمہوریہ ہے جہاںپاکستانی عوام ایک دو ایوانی مقننہ یعنی پاکستان کی پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں ۔پارلیمنٹ ایک ایوان زیریں پر مشتمل ہے جسے قومی اسمبلی کہا جاتا ہے جس کا براہ راست انتخاب عوام کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ ایوان بالا سینیٹ کہلاتا ہے جس کے اراکین کا انتخاب صوبائی قانون ساز منتخب کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں چونکہ جمہوری نظام رائج ہے اور حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جو قومی اسمبلی کے اکثریتی اراکین کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ سربراہ مملکت صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے جو چاروں ایوانوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ پاکستان میں پانچ ہزار سے زیادہ منتخب مقامی حکومتیں بھی ہیں جو نچلی سطح پر عوام کے لیے کام کرتی ہیں۔ملک میں الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے جو ایک آئینی طور پر قائم کردہ ادارہ ہے جس کی صدارت ایک مقرر اور نامزد چیف الیکشن کمشنر کرتا ہے ۔پاکستان کے آئین کا حصہ VIII باب 2 اور مختلف ترامیم میں عام انتخابات کے انعقاد کی وضاحت کرتا ہے۔ قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے اور سینیٹ 100 نشستوں پر مشتمل ہے (سابق فاٹا کے انضمام کے بعد)جسکے اراکین چاروں صوبوں سے منتخب ہوتے ہیں، آئین یہ حکم دیتا ہے کہ عام انتخابات ہر پانچ سال بعد اس وقت کرائے جائیں جب قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر لے یا تحلیل ہو جائے اور سینیٹ کے انتخابات چھ سال کی مدت کے لیے ارکان کے انتخاب کے لیے کرائے جائیں ۔ قانون کے مطابق قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کے دو ماہ کے اندر عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہندوستان کے مسلمانوں نے انیسویں صدی کے وسط سے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی برطانوی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ،جن کی اپنی اپنی سماجی و ثقافتی طرز زندگی ہے۔ 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے برصغیر کے تمام رہنماؤں کی کانفرنس بلائی اور انہیں اقتدار کی منتقلی کے لیے اپنی حکومت کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ 26 جولائی 1947 ء کو شائع ہونے والے گزٹ آف انڈیا میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو 69 ممبران کی شکل دی گئی تھی (بعد میں ممبران کی تعداد بڑھا کر 79 کر دی گئی تھی) جس میں ایک خاتون ممبر بھی شامل تھی۔ پاکستان کی ریاست 1947ء کے آزادی ایکٹ کے تحت بنائی گئی تھی۔ اس ایکٹ نے موجودہ دستور ساز اسمبلیوں کو مقننہ بنا دیا۔ ان اسمبلیوں کو وہ تمام اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو پہلے مرکزی مقننہ کے ذریعہ استعمال کی جاتی تھیں۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10 اگست 1947 کو سندھ اسمبلی بلڈنگ کراچی میں منعقد ہوااور 11 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی جناح کو متفقہ طور پر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا اور قومی پرچم کو اسمبلی نے باضابطہ طور پر منظور کیاتھااور پھر12 اگست 1947 کو محمد علی جناح کو باضابطہ طور پر ”قائد اعظم محمد علی جناح” کے خطاب سے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی، اسی دن ”پاکستان کے شہریوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی کمیٹی” کے نام سے ایک خصوصی کمیٹی مقرر کی گئی تھی جو قانون سازی کے مقصد کے ساتھ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق معاملات پر اسمبلی کو مشورے دیگی اور پھر 14 اگست 1947 کو اقتدار کی منتقلی ہوئی ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کیااور قائداعظم نے ایوان میں اسکے خطاب کا جواب دیا جس پر ریاست پاکستان کے اصولوں کی بنیاد رکھی گئی۔15 اگست 1947 کو قائداعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں سر عبدالرشید نے ان سے عہدے کا حلف لیا اورقائدسعظم اپنی وفات تک یعنی 11 ستمبر 1948 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد سے سے لیکر آج تک ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے وہ متنازع ہی رہے بلکہ انہی الیکشن کے باعث آدھا پاکستان ہم سے جدا ہوگیا امید ہے کہ اب آنے والے الیکشن منصفانہ ہونگے تاکہ حقیقی پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے ۔