وجود

... loading ...

وجود

شاہی فرمان اورکوراکاغذ

جمعرات 14 دسمبر 2023 شاہی فرمان اورکوراکاغذ

سمیع اللہ ملک

کل ہی پتہ چلاکہ کہ اندرکھاتے یہ ہدایات اورشاہی فرمان جاری ہوگیاہے کہ اب لب بند،قلم بند،زباں بنداس کے بعد جاری مہیب سناٹا،خاموشی،اضطراب اوربے کلی کے سواکیا بچاہے؟ پوری رات یوں ہی گزرگئی۔پھرسناٹے،خاموشی اوراضطراب کوتوڑتی ہوئی ایک آوازبلندہوئی۔رب کی برتری،عظمت اورجلال کی آوازخانہ خداکے بلندمیناروں سے گونجتی ہوئی،جسے کوئی نہیں روک سکتاہاں کوئی بھی نہیں۔رب ذوالجلال کی کبریائی بیان کرتی ہوئی آواز،زمینی خداؤں کے منہ پرخاک مل دینے والی آواز،خودساختہ دیوتاؤں کولرزا دینے والی آواز،انسانیت کیلئے نوید ِمسرت حوصلہ اور امید کا نقارہ ،نقارہ خداوندی ،سربلندوبا وقارجلال اورجمال سربلند باددوستانِ دیں کی نوید۔
ہم بھی عجیب ہیں۔وہ پکارتاہے:آؤتم فلاح چاہتے ہوناں،توآؤ۔اورہم کیاکرتے ہیں؟زمینی خداؤں کے آگے بھکاری بن کرکھڑے رہتے ہیں اوردھتکاردیے جاتے ہیں، دھتکارے ہوئے لوگ اورجب ہرطرف سے،ہردرسے محروم ونامرادلوٹتے ہیں،تب وہ ہمیں یادآتا ہے۔ہاں وہ پھربھی ہمیں گلے لگاتاہے۔پیغامِ مسرت سناتاہے،اصل کی طرف بلاتاہے۔بس وہی ہے اورہے کون؟ہم گداگراوربھکاری بن گئے ہیں۔ہم فقیرکہاں ہیں! فقرکی توشان ہی نرالی ہے۔وہ میراجواں مرگ دوست یاد آگیا۔اس نے کیا خوب کہاتھا:ہم کہاں ایک ہی بابِ طلب تک رہتے ہیں!بے شمارولاتعداددروں کے محتاج ہوگئے ہیں اوروہ پھربھی ہماری بے وفائی،ہماری غلطیوں،ہماری سیہ کاریوں،ہماری بداعمالیوں،منافقتوں اورہمارے کھوٹ کونظراندازکردیتاہے۔آؤفلاح کی طرف ،بس یہی درِخالص ہے،باقی سب جھوٹ ہے،مکرہے،فریب ہے۔مکروفریب کی سہانی دنیابے چینی کاسرچشمہ۔رات بھرآنکھوں میں کاٹنے کے بعدعلی الصبح جب بہت بے کلی بڑھی تب باباجی اقبال یادآنے لگے:
صدنالہ شب گیرے،صدصبح بلاخیزے
صد آہ شررریزے،یک شعردل آویزے
درعشق وہوس ناکی،دانی کی تفاوت چیست؟
آں تیشہ فرہادے،ایں حیلہ پرویزے
(رات بھرکے سینکڑوں نالے،سینکڑوں آفت لانے والی صبحیں،سینکڑوں شعلے پھینکنے والی آہیں ایک طرف
اورایک دل کو لبھانے والاشعرایک طرف۔ کیاتوجانتاہے کہ عشق اور ہوس میں کیافرق ہے؟عشق فرہاد کا
تیشہ ہے اورہوس خسروپرویزکا حیلہ ،مکاری اورفریب ہے۔)
واصف علی واصف کاکیاخوب قول یادآگیا”ہم سب فرعون کی زندگی اور موسی کی عاقبت چاہتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا”۔ اور پھر تو تانتابندھ گیا۔یہ جوزمینی خدابن بیٹھے ہیں،اوروہ جوگزرگئے،اب تماش بینوں کیلئے سامانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔اس سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اندھے، بہرے، خودفریبی کاشکارفرعونِ زمانہ ،یہ سمجھتے ہیں ہم ہیں پالن ہار،بس ہم۔عجیب سی بات ہے۔یہ لبرل، سیکولر اورروشن خیالی کے دعویداراوروہ بھی اصل نہیں بالکل جعلی۔اصل تو ہر بات اچھی لگتی ہے ناں۔ٹھیک ہے اختلاف اپنی جگہ،اصل تو ہوناں۔ سراسر جعل سازی کے ماہر۔منافقت کے مجسم شاہکارخودفریب۔یہ سمجھتے ہیں نظامِ کائنات یہ خود فریب چلا رہے ہیں۔ عقل و فکر کے اندھے، انسانیت کے نام پر دھبہ۔
ایوان اقتدارمیں سستانے والوں کویہ خبرہوکہ سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کانام ہے۔اپنی عقل وفراست کے ساتھ اس کے بندمضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کوبندکرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کیاجاتا ۔اوپر کی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اورنیچے؟کیااب بھی وہی ہم اوروہی غم ہوں گے۔چہرے بدلنے سے کبھی مقدرنہیں بدلتے۔ تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی،لوڈ شیڈنگ اورآئے دن ایک دوسرے پر کرپشن، بدانتظامی اوردیگرالزامات کے ذکرپرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات وواقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آوازبھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔رہی سہی کسراب اس نئی ڈاکٹرائن نے نکال دی ہے کہ پھرسے نئے لاڈلوں پرسیاسی سرمایہ کاری جبکہ درجنوں مرتبہ ہم ان سب کوآزماچکے ہیں۔اس کیلئے موجودہ سرکارکوعوام کیلئے اللہ سے”کاروبار”کرناہوگاپھرکہیں جاکران کابازارچلے گا۔ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کا کیا پتہ، انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہو جائے تووہ آنکھ بندکرنے سے ہی توبہ کرلیں۔بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیرسورہے ہوتے ہیں۔ایسابھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیر جاگتی رہتی ہے۔بہت سے خواتین و حضرات کوآنکھوں کی”چہل قدمی”کابڑاشوق ہوتا ہے،انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق ِچشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگا جاتے ہیں۔دوسروں کے گھروں میں”نظراندازی”کرنے والوں کواپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پرکیاگزرتی ہے۔من کاویسے بھی دھن سے کیارشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیاتوبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں۔
پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیرنہیں رہ سکتے اوراسلام آبادان کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑاہاتھ ہے۔ارض وطن کی معاشی بدحالی اورسیاسی انتشارکافائدہ اٹھاتے ہوئی بیرونی دباؤکی وجہ سے استعمار سے جلددوستی کی بیماری اب وباکی شکل اختیارکرگئی ہے۔جب تک ان تمام اافرادکوانصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑانہیں کریں گے جنہوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایاہے،مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کر لیں،”کاغذکورا”ہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اوراس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں ،جب تک جان ہے،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں
ہارجیت چلتی رہتی ہے۔ جیتنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورآپ مخالفین کوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہو رہے ہیں۔آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خودکوٹرین سے کٹواکرہمارے سسٹم کوکاٹ کررکھ دیتی ہے،ہمارے ہاں زندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتاتومرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔امیرشہرکا تواپنایہ حال ہے۔
امیرشہرغریبوں کاخیال کیاکرتا
امیرشہرکی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
ہوش میں آؤ۔تمہارے فرمان تمہیں نہیں بچاسکتے۔کبھی نہیں!سربلندرہے گاسدامیرے رب کافرمان۔ہاں اصل فرمان۔تمہیں شوق چڑھ آیاہے توپوری کرلواپنی حسرت،جاناتوہم سب کوایک ہی جگہ ہے۔پھرتم اپنی کرنی کرگزرو۔جوہوگادیکھاجائے گا۔جوچاہے کرو ،بس یادرکھناتم خالق ومالک نہیں ہو۔بن ہی نہیں سکتے۔کبھی نہیں۔باب علم جناب علی کرم اللہ وجہہ کے قول کوہم کیوں بھول رہے ہیں کہ”لوگوں پرایک زمانہ آنے والاہے جب صدقہ کوخسارہ،رحم کرنے کواحسان اورعبادت کوایک دوسرے پربرتری اورسبقت کا ذریعہ قرار دیا جائے گا۔ ایسے وقت میں حکومت عورتوں کے مشورے،بچوں کے اقتداراورخواجہ سراؤں کی تدبیرکے سہارے رہ جائے گی”۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر