... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
کون سا قانون اور کون سا تحفظ صحافیوں کیلئے ہے ، حکمرانوں سے تو ایک سچ برداشت نہیں ہوسکتا ،وہ تحریر کی شکل میں ہو یا تقریر کی شکل میں! ضمیر کی لاش کے تعفن پر خوشبو کی چادر نہیں ڈالی جاسکتی،جذبوں پر ضبط کے بند نہیں باندھے جاسکتے، سچ ہمیشہ غیر مرئی رفتار سے سفر کرتا ہے ۔ سراپا احتجاج لوگ یقین کے ساتھ اعادہ کرنے نکلتے رہے کہ سچ پر جتنے کڑے پہرے بٹھا دیے جائیں سچ آزاد ہوگا اور ہم سچ کو آزاد کرائیں گے ۔ ایک متعین صبر کے ساتھ ہماری لاشیں گرتی رہیں مگر صحافتی آزادی کی جدوجہد آہستہ خرام اور دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہی،بے دردی سے مارے جا نے والوں کی کراہوں کا پس منظر اب نہیں دب سکتا ۔درد کی تپش آج بھی ہمارے وجود کو جھلسا رہی ہے ۔ ہمارے آباء کو مت بھولو جو اس سچ کی خاطر پابند سلاسل ہوئے ،شاہی قلعہ کے زنداں گواہی کی مہریں آج بھی ثبت کر رہے ہیں۔ قید تنہائی،سچ کے ساتھ لگن اور دیوانگی کا عالم جس نے چمکتے سورج اور نیلے آسمان کونظروں سے اوجھل کردیا اور ماضی کے وہ غاصب، سچ کو نکیل ڈالنے کے خواہش مند جن کی دھنسی ہوئی قبروں پر قدم رکھ کر سچ کی صبح طلوع ہوئی اور سچ کا احسا س دلانے والے ،صداقتوں کے امیں شورش کاشمیری ،مولانا ابوالکلام آزاد،مولوی باقر ،ظفر علی خان ،سے لیکر ارشد شریف شہید کا سچ زندگی ہے، موت نہیں،اُمید ہے مایوسی نہیں،صبح ہے شام نہیں،تازگی ہے پژمردگی نہیں،جدوجہد ہے ہزیمت نہیں۔
وطن عزیز کے ہر باسی کے خواب کو حقیقت بنانے والے سچ کو لگے قفل کے دہانے کھولنے والے ،قبرستان نما خاموشیوں کو زبان دینے والے جب جھوٹ راکھ پر راکھ لاد رہا ہے تو کون سا قانون ہے جو صحافیوں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا،کیا ہم وطن عزیز میں آزادی صحافت کو تصوراتی حدتک ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عملاً زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ سول آمریت کے کانوں کے پردے تو ہمیشہ سچ کی گونج سے پھٹتے رہے ، مفتوح صحافت کی ناکام خواہش ہر دور کے حکمرانوں کا مقصد اولین رہا،مفتوح صحافت کی ضرورت ایوب خان کو بھی محسوس ہوئی جس نے صحافت کی آزادی کا دائرہ تنگ کرنے کیلئے پی پی او کے نام سے 8ستمبر1963ء کو اپنے خود ساختہ کالے قانون کے ذریعے پریس کو پابہ زنجیر کرنے کی ناکام خواہش کی مگر 24گھنٹوں کے احتجاج نے آمر وقت کے ارادوں کو متزلزل اورآمریت کو سر نگوں کردیا۔ آزادی صحافت کے قافلے کے آگے ضیائی آمریت کے کوڑے اور مشرف آمریت کا پیمرا آرڈیننس بھی بند نہ باندھ سکا،کوئی حیرت نہیں،ہم لکھنے والوں اور بولنے والوں کو ادراک ہے کہ ضیائی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والوں نے ہمیشہ پریس کو پابہ زنجیر کر نے کی کوشش کی مگر شخصی طاقت کا ظہور ہمیشہ غیر یقینی اور مختصر مدت کیلئے ہوا کرتا ہے۔
2010میں جب پنجاب کے تخت و تاج کے وارث خادم اعلیٰ تھے تو اُس وقت بھی میڈیا کے خلاف ایک ن لیگی رکن اسمبلی نے حکومتی آشیر باد سے پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا اور تخت پنجاب پر مسلط حکمران نے ایک جھوٹ یہ بولا کہ مجھے اس قرار داد کا علم نہیں حالانکہ جب یہ قرار داد اسمبلی میں پیش کی جارہی تھی تو موصوف اُس وقت موجود تھے ،ارشد شریف کے ساتھ ہونے والی انتقامی کارروائی کے پس منظر سے کیا ہم جان چھڑا سکتے ہیں۔ سچ کے عیا ں ہونے کا خوف سچ کو سلاخوں کے پیچھے لے گیا،کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ زندگی کے کئی معاملات ہم سے عاجلانہ فیصلوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔بے شک کشتیاں ساحلوں پر محفوظ رہتی ہیں لیکن کشتیاں سمندروں کیلئے اور تلاطم کا سامنا کرنے کیلئے ہی بنائی جاتی ہیں۔ میڈیا پرسنز اور جمہوریت کا لباس زیب تن کئے ہوئے آمر حکمران ان حقائق کو بھی مد نظر رکھیں ۔ میڈیا ہاؤسزمیں سچائی کا پرچار کرنے والے صحافی اپنے کڑوے سچ کی اسکرین کے پس منظر میں اُبھرنے والے شخصی انتقام کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر ہی آزاد صحافت کی پیشانی روشن کرتے ہیں۔ اقتدار کے اندھے جنون کی نابینا آنکھیں ہمیشہ شخصی خواہشات کے منظر تخلیق کرتی رہیں۔ سچ اسی کو سمجھا گیا جسے حکمرانوں کی سماعت سننا چاہتی تھی۔ آمرانہ اور شخصی حکمرانی کے نزدیک بانگ جرس یہی ہے کہ خاموش رہا جائے۔ چینلز پر اپنے ضمیر کی آواز اُٹھانے والے پرتعیش اشرافیہ پر نچھاور کیے جانے والے ٹیکسوں پر خاموش رہیں،صحافت کے علمبرداروں کے خلاف انتقامی کارروائی کو ہم ان پر عوام کے غیر متزلزل یقین کا با آواز بلند اعلان کہہ سکتے ہیں جس سے جمہوری حکمران خائف ہیں۔ اسے ہم تاریخی غلطی کہہ سکتے ہیں کہ حکمران اس بات کا ادراک تک نہیں رکھتے کہ ہر دور کی تبدیلی میں بنیادی کردار میڈیا کا رہا۔ بالا دست طبقات کے خلاف تاریخی جدوجہد سے میڈیا کو نکال دیا جائے تو تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی ہمیں اس بحث کو بھی سمیٹنا ہے کہ حکومت کا دست نگر اور خوشامدی میڈیامحض کاسہ لیسی کیلئے ہی کمر بستہ ہے اور اپنے ہی تخلیق کردہ تضاد میں پھنسا ہوا دلالی کی صحافت میں نظریاتی اصولوں کو متروک اور بے معنی قرار دینے میں کوشاں جبکہ ارشد شریف شہید ایک ناقابل مصالحت سچائی کے ساتھ فاتح، پریس کی آزادی سلب کرنے کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہا۔ ایک سچ کیا اسکرین پر چلتا ہے کہ سارے جمہوری بلبلا اُٹھتے ہیں ،سچائی کے عارضی جمود میں جمہوریت کی رہی سہی ساکھ چکنا چور ہو چکی۔