... loading ...
ایم سرور صدیقی
آصف علی زرداری کے سیاسی جانشین بلاول بھٹوزرداری کبھی کبھار بڑے مزے کی باتیں کرتے ہیں۔ ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے کہاہے کہ ایک جیل سے نکلنے کے لیے اور دوسرا جیل سے بچنے کے لیے الیکشن لڑ رہا ہے۔ جیالے ڈرنے اور جھکنے والے نہیں، پی پی کے جیالے مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ، پیپلز پارٹی ہمیشہ الیکشن کے لیے تیار ہیں، پیپلز پارٹی نے ہر دور میں عوامی سیاست اور پسماندہ علاقوں کے مظلوم عوام کی نمائندگی کی ہے۔ ہماری پارٹی نے ہمیشہ غربت کا مقابلہ کیا ہے، کمزور طبقے کی نمائندگی کی ہے، ہمارا کوئی سیاسی مخالف نہیں، کوئی کھلاڑی یا کوئی اور ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہمارا مقابلہ سیاست دانوں سے نہیں، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت سے ہے، میں اور میری پارٹی تین نسلوں سے یہی جدوجہد کرتے آ رہے ہیں۔ میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے الیکشن لڑ رہا ہوں، پیپلز پارٹی اشرافیہ کی نہیں، غریبوں، مزدوروں اور سفید پوش طبقے کی نمائندگی کرتی ہے، ہم روایتی اور تقسیم کی سیاست کو دفن کر کے خدمت کی سیاست کاآغاز کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی حکومت بنا رہی ہے، حکومت بنا کر عوام کو ان کا حق دیں گے، ہم امید کرتے ہیں کہ پوری دنیا کو بتایا جائے گا کہ مسلم امہ کے لیڈر کو پھانسی پر کیوں چڑھایا گیا، ہم عوام پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے قائد نے سکھایا تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔بہرحال بلاول بھٹو کے تحفظات و خدشات اپنی جگہ پر مسلمہ ہیں کیونکہ باخبرلوگوںکا کہناہے کہ میاں نوازشریف پھر دو تہائی اکثریت مانگ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے بھی دوتہائی اکثریت سے حکومت بنا چکے ہیں لیکن عوامی مسائل اور ملکی حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ اس لیے کہاجاسکتاہے کہ جو مقتدرہ قوتیں انہیں حکومت دلوانا چاہتی ہیں، ان کو نوازشریف چوتھی بار بھی بھگتنا پڑے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے ، جو تین بار وزیراعظم بن کر کچھ نہ کرسکا۔ وہ چوتھی بار کیا تیر مارے گا، نواز شریف چوتھی بار بھی سلیکٹ ہوکر آئے تو عدالتوںکے فیصلوںکا کیا بنے گا۔ بلاول بھٹوزرداری نے کہا ایسے وزیر ِ اعظم میں مانوںگا۔ نہ عوام مانیں گے ہم نے پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کو سمجھایا تھا۔ امپائرکی انگلی پر بھروسہ نہ کریں،مجھے کیوں نکالا کہتے کہتے میاںنوازشریف لندن کے ایون فیلڈ پہنچے اور وہاں سے انقلاب لانے لگے،زمان پارک کے وزیراعظم نے انتقامی سیاست کو فروغ دیا ۔ ملک کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ ہم انتقام کی سیاست یا کھلاڑی کو برداشت کریں، 8فروری کو عوام ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو منتخب کرینگے۔ عمران خان کو جو موقع ملا تھا وہ انہوں نے انتقامی سیاست میں ضائع کر دیا ۔ایسے ہی خیالات مسلم لیگ ن کے پیپلزپارٹی کے بارے میں ہیں لیکن یہ کیسی سیاست ہے کہ جب مفادات ہوں یہ سب اکٹھے ہوجاتے ہیں وگرنہ ایک دوسرے کے خلاف توپیں لے کر کھڑا ہونا جمہوریت کی شان سمجھ بیٹھتے ہیں۔بلاول بھٹوزرداری نے تو میاںنوازشریف کے خلاف” آڈھا” لگارکھاہے اس کا ایک پس منظرتو سب جانتے ہیں کہ ان دونوں جماعتوںنے کم و بیش دو دہائیوںتک ایک دوسرے کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کیے، جیلوںمیں ڈالا پھر جب چاہا اتحادکرلیا ،جب چاہا ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے ۔ بلاول بھٹوزرداری کے بارے میں فی الحال مسلم لیگ ن چپ ہے کہ میاں نوازشریف اپنی لائن سیدھی کررہے ہیں۔ تعلقات وہیں سے جوڑے جارہے ہیں جہاںسے تعطل کا شکارہوئے تھے ۔بہرحال بلاول بھٹوزرداری میاںنوازشریف کو اس لیے للکاررہے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں لوگ ان کو میاں نوازشریف کی اپوزیشن کا مقام دے دیں کہ ٹکرکے لوگ ہیں لیکن وہ یقینا یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ عمران خان کو ہر لحاظ سے آؤٹ بھی کردیا جائے تو پاکستان کی حقیقی اپوزیشن وہی ہوں گے، ان کے بغیر الیکشن کی کوئی حیثیت نہیں ایسا الیکشن کوئی تسلیم نہیں کریگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پورے ملک کی سب جماعتیں مل کر ایک نشان پر بھی الیکشن لڑلیں ، عمران خان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس بات کاادراک سب سیاستدانوںکو ہے لیکن وہ خوف کے مارے اعتراف نہیں کرنا چاہتے اگر یہ الیکشن الیکشن کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔