... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
بدقسمتی سے پاکستان بننے کے کچھ سالوں کے بعد ہی سندھ کی سیاست میںتعصب کی غلاظت اور عوام دشمن بدعنوانی کے آمیزش شامل ہونے لگی تھی ۔ پاکستان مخالف قوتیں روپے پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر ایسے ذہنوں کی تلاش میں لگ گئی جوچند عارضی مفادات کے عوض سندھ میں اثرو نفوذ حاصل کر کے ملکی مفادات کا سودا کرسکیں جس کے لیے پاکستان مخالف قوتوں نے سندھ بھر سے ایسے لوگوں کو تلاش کرکے نہ صرف سندھ کی سیاست کا اہم ترین مہرہ بنایا بلکہ انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کی بھرپور کوشش بھی کی،ان میں جوش و جوشیلے سیاسی لیڈر بھی تھے اور خاموش پس پردہ نوکر شاہی طبقہ کے کچھ لوگ بھی، سندھ کی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غیر ملکی قوتوں کو اس مد میں کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور خود غرضی، اقربہ پروری، لسانیت، تعصب کی بنا پر صوبہ سندھ میں ایسی سیاسی فضا بالآخر قائم ہو ہی گئی کہ جس سے سندھ کی بڑھتی ہوئی ترقی اور خوشحالی کو زنگ لگ گیا، حکومتی اداروں کی تباہی کا نہ ختم ہونے ایک سلسلہ شروع ہوگیا، لوٹ مار،کرپشن، بدعنوانی اور نا اہلیت کو روز افزوں فروغ ملنے لگا حتیٰ کہ غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر ناچنے والے سیاسی مہرے اپنے اپنے تعصب میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ سندھ میں کسی ایک بھی محکمے کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل رہ سکے۔
سندھ میں سرکاری اداروں کی ابتری اور اُن کا زوال اس انتہا تک جاپہنچا کہ آخر ایک دن سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی سندھ کے تمام اداروں کی موت کا باقاعدہ اعلان کرنا پڑا مگر یہ اعلان بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ سندھ میں پانی کی فراہمی کے لیے بھی اعلیٰ عدلیہ کو ایک واٹر کمیشن تشکیل دینا پڑا تاکہ کسی طرح سندھ کی عوام کو کم ازکم صاف پانی تو پہنچایا جا سکے۔نیز عدالت کے حکم پر سیاست کے لبادہ میں لپٹے میں دہشت گردوں اور قبضہ مافیا کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا اوریہ ہمارے ریاستی اداروں کی بروقت مداخلت ہی تھی جس نے صوبہ سندھ میں لسانی تعصب اور قوم پرستی پر مبنی سیاست کو پس منظر میں دھکیل دیا اور اس کے ساتھ ہی ملک دشمن قوتوں کا وہ انقلابی رومانس بھی رخصت ہوگیا جو گزشتہ ایک عرصے سے سندھ کی قومی سیاست کو تعصب کے نشتر سے زخم زخم کررہا تھا ۔ آج سندھ میں تعصب اور قوم پرستی کا کھیل کھیلنے والے خود گمبھیر اور پریشان کن مسائل سے دوچار ہیں اور اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اور اس ناکام جنگ کے اثرات سندھ کی سیاست میں بھی بدرجہ اتم ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔اِس وقت سندھ کی کم وبیش تمام قوم پرست جماعتیںاپنی باقی ماندہ سیاسی طاقت بچانے کے لیے کسی محفوظ سیاسی پناہ کی تلاش میں نظرآتی ہیں تو دوسری جانب اُن کے مقابلہ میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعتوں ایم کیوایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان صوبے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ایک غیر اعلانیہ سیاسی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوچکی ہے۔
8 فروری کو انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سندھ کی بڑی اور مضبوط سیاسی شخصیات کو کسی دوسری سیاسی جماعت کی چھتری تلے جانے سے روکنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور یہ اسی کوشش کا نتیجہ ہی ہے کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیوایم پاکستان کی بھی کئی وکٹیں گرادی ہیں۔خاص طور پرپیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلم لیگ فنکشنل کی مضبوط پوزیشن کو کافی حد تک سیاسی زک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔نیز آصف علی زرداری سندھ شہری علاقوں میں بھی پیپلزپارٹی کو مضبوط کرکے مزید نشستیں حاصل کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔ خصوصاً کراچی، حیدرآباد ،میرپورخاص ، سکھر اور نواب شاہ میں متحدہ قومی موومنٹ کو درپیش مشکلات اور دھڑے بندیوں سے پیپلزپارٹی بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھارہی ہے۔مگر فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی مذکورہ سیاسی کامیابیوں کے بل بوتے پر انتخابات میں غیر معمولی نتائج حاصل کر سکے گی یا نہیں ؟دراصل بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں اپنے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو کافی مضبوط کیاہے ،وہیں کئی انتظامی معاملات میں اُسے ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑاہے ۔ مثال کے طور پر سندھ بشمول کراچی کا کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہونا اور صوبہ سندھ میں اَمن و اَمان کی صورت حال کا انتہائی دگرگوں ہونا ،سندھ حکومت کی ایسی انتظامی کمزوریاں ہیں، جن کا خمیازہ پیپلزپارٹی کو اگلے انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، آصفہ اور بختاور بھی کبھی عرصے سے اپنے آپ کو سیاست کے میدان میں فعال رکھے ہوئے ہیں۔بے نظیر بھٹو کی دونوں صاحبزادیوں کی رائے کو پیپلزپارٹی میں بڑی اہمیت حاصل ہے جبکہ بلاول بھٹو ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ بحیثیت چیئرمین کسی بھی اختیار کو استعمال کرنے اور فیصلہ سازی کی قوت رکھتے ہیں یا نہیں اور یہ ہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کا متحرک ہونا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا پارہا۔ حالانکہ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو کی جانب سے جاری ہونے والی ایک بیان سے ایسا محسوس ہوا تھا کہ پیپلزپارٹی کی زمام مکمل طور پر انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے ۔مگر اگلے ہی روز آصف علی زرداری نے یہ بیان دے کر کہ ”بلاول ابھی ناتجربہ کار ہے اور پارٹی میں سارے فیصلے میں ہی کرتاہوں ”۔ بلاول کو واپس پچھلی نشست پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ جبکہ دوسری جانب ایم کیوایم پاکستان بھی پوری طرح سے متحرک ہوچکی ہے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کے بعد اَب وہ سندھ کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ دراصل پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں ہی8 فروری کے انتخابات میں ایک بار پھر عوام سے بڑی امید لگائے بیٹھی ہیںکہ وہ ان پر اعتماد کا اظہار کے بارِ دگر انہیں اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچا دے۔ سیاسی فضا بتا رہی ہے کہ بہت جلد سندھ کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور تبدیل ہونے والا ہے ،دیکھنا یہ ہوگاکہ 8 فروری کو ہونے والی فیصلہ کن ”سیاسی جنگ ”میں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔۔۔۔!!
٭٭٭