... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسی کڑھی میں پھر اُبال ہے اور ستم گر دسمبر کا سامنا ہے!!
تاریخ کے سینے میں ایک کے بعد ایک واقعات اسی ماہ پیوست ہوئے۔ کچھ ایسے بھی جنہیں دماغوں سے کھرچنے اور نسیان کی نذر کرنے کی منظم وارداتیںہوتی ہیں۔ 10 دسمبر 2000ء کو ایک ایسی ہی واردات ہوئی ۔
جنرل پرویز مشرف ایک منظم جبر کے ذریعے اپنے استبداد کو وسیع کرنے میں مصروف تھے۔ نوازشریف اضطراراً زنداں میں پڑے تھے، جمہور پسند حلقے اپنی صف بندی میںمصروف ۔امید پیدا ہو رہی تھی کہ ایک تمدنی ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے جنرل جیلانی کے پنگھوڑے میں جھولنے والے نوازشریف کے گرد کوئی تحریک پیدا کی جاسکتی ہے، جو جماعتی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک عظیم مقصد کے لیے دہکتی رہے۔مگر تاجر ایسے نہیں سوچتا۔جو راز حضرت مسیح کی پیدائش سے چار سو سال قبل قدیم زمانوں کی عمیق دانش بن کر افلاطون کی زبان سے ظاہر ہو چکا تھا، وہ اُن کے دو ہزار برس بعد بھی مملکت خداداد پاکستان پر اب بھی واضح نہ ہوا تھا کہ ”تاجر کسی قوم کے حکمران بن جائیں تو وہ قوم تباہ وبرباد ہو جاتی ہے”۔تاجر نوازشریف اپنی آسائش کے دن واپس پلٹانا چاہتے تھے۔ یہ نہیں سوچا کہ داؤ پر کیا لگا ہے؟ تیئس کروڑ کے ملک کا مستقبل ۔مستقل طرزِ حکمرانی کے اُصول طے کرنے کے ایک سنہری موقع کے انتظار میں بھٹکتے آدرش پسند تب مایوس ہوئے اور افلاطون کے الفاظ کی حقیقت کا ادراک کر پائے۔
اہلِ وطن پر10 دسمبر 2000ء کویہ ہکا بکا کرنے والی خبر بجلی بن کر گری کہ اُن کا ”شیر” سمجھوتہ کرکے رات کی تاریکی میں گم ہو گیا ہے۔ نوازشریف نے پرویز مشرف سے معاملات طے کیے، اپنی سزا معاف کروائی ( جس نوع کے تماشے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں) اور خاندان سمیت جدہ اُڑن چھو ہو گئے۔ جہاں اگلے سات برس وہ سعودی بادشاہ کے سرکاری مہمان بن کر ”سرور پیلس” میں آسودہ رہے۔ نواز شریف کا تختہ12 اکتوبر 1999ء کواُلٹایا گیا۔ اُن پر مختلف مقدمات غلط یا صحیح جو بھی بنے، اُس میں عدالتوں کی جانب سے سزائیں بھی سنائی گئیں۔ نوازشریف کو 6 اپریل 2000ء کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے دو مرتبہ عمر قید با مشقت ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تمام تر جائیداد کی بحق سرکار ضبطی کی سزا دی گئی تھی۔ دوسرے مقدمے میں 22 جولائی 2000ء کو ایک احتساب عدالت نے چودہ سال قید با مشقت ، دو کروڑ روپے جرمانہ اور 21 سال تک کسی عوامی عہدے کے لیے نااہلی کی سزا سنائی تھی۔ اگر یہ سزا لا گو رہتی تو وہ ملک کے تیسری مرتبہ 5جون 2013 ء سے 28 جولائی 2017ء تک وزیر اعظم نہ بن سکتے تھے۔ مگر نوازشریف نے معافی کی درخواست کی اور یہ قبول کر لی گئی۔ تب ریاست( ایک مغالطہ آمیز اصطلاح جو غیر قانونی کاموں کے لیے اکثر استعمال ہوتی ہے) جنرل پرویز مشرف کے احکامات کا نام ہوتی تھی۔ نوازشریف کی تمام سزائیں راتوں رات منسوخ ہو گئیں ۔ چونکہ ڈکٹیٹر کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے، پرویز مشرف بھی نہ تھے۔ چونکہ ایسے سمجھوتے قانونی نہیں ہوتے، اس سمجھوتے کا کوئی قانونی جامہ پاجامہ بھی نہ سلوایا گیا۔ چونکہ تاجر نفع نقصان دیکھتے ہیں، نوازشریف نے بھی وہی دیکھا۔ قوم کو البتہ ایک طفل تسلی دی جاتی ہے، یہاں بھی ایک مژدہ کی صورت میں تھی کہ نواز شریف کی معافی قبول کرتے ہوئے تاوان کے طور پر جائیدادیں اور بھاری رقم حکومت کی تحویل میں آ گئی ہیں۔ ہمیں مہیا کی گئی تفصیلات کچھ یوں تھیں کہ شریف خاندان کی ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ ، برادر اسٹیل مل ، الیاس انٹرپرائزز ، حدیبیہ پیپر ملز ، حدیبیہ انجینئرنگ ، حمزہ اسپننگ ملز ، برطانیہ میں واقع ایک ہوٹل کے علاوہ 30 کروڑ روپے نقد وصولے گئے ہیں۔ ان میں سے کیا چیز کیسے نواز شریف کی جھولی میں واپس آ گری ،دائروں کے کھیل کی یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے مگرکالم کی تنگ دامنی میں یہ سمٹ نہیں سکتی۔
البتہ 10 دسمبر کی اس اچانک واردات کے ساتھ دو ایسے واقعات بھی ہوئے جو نوازشریف اور ان کے خاندان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔واردات سے قبل محترمہ کلثوم نواز اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ایک مہم جو کے تیور سے سیاست کے میدان میں اُتریں۔ وہ اس قدر بے باکی سے اپنے شوہر کا سیاسی مقدمہ لڑ رہی تھی کہ پس پردہ شریف خاندان کے مردوں کے اصل احوال سے آگاہ لوگ نجی محفل میں یہ کہنے لگے تھے کہ اس خاندان میں ”مرد تو یہی ایک خاتون ہے”۔ اپنی اسی مہم میں وہ نواب زادہ نصر اللہ خان کے گھر بھی تشریف لے گئیں اور اُن سے درخواست کی کہ وہ بحالی جمہوریت کی تحریک کو مہمیز دیں۔ نواز لیگ ہر طرح سے اس تحریک کا ہر اول دستہ ہوگی۔ تذبذب کے شکار نواب زادہ نصر اللہ خان محترمہ کلثوم نواز کی یقین دہانی اور نوازشریف کے جیل سے پیغام کے باعث آمادہ ہو گئے۔ وہ مشرف کے خلاف اس تحریک کے لیے باقی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک اُنہیںبھی 10 دسمبر کو ہی یہ پتہ چلا کہ” شیر” کیا واردات کر گیا !تب طرح دار نصراللہ خان نے ایک فقرہ کہا: ہمیشہ سیاست دانوں سے معاملات کیے پہلی مرتبہ ایک تاجر سے معاملہ ہوا اور گھاٹے میں رہے”۔ نواب زادہ نصر اللہ خان اپنے انتقال تک اس ملال کا اظہار کرتے رہے۔ ایک دوسرا واقعہ بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
مخدوم جاوید ہاشمی کی بہادری پر کسے شک ہے، مگر ایک ہیجان میں رہتے ہیں۔ نوازشریف جب معافی تلافی اور معاہدہ کرکے جدہ جا بسے تو نون لیگ کی کھیتی بھی اجڑنے لگی تب اسی بہادر جاوید ہاشمی نے نون لیگ کی رونقیں بحال کی تھیں۔10 دسمبر کی واردات کے وقت جب سعودیہ کا شاہی جہاز رات کی تاریکی میں انسانوں کے سونے اور چمگاڈروں کے جاگنے کے وقت اڑا تو اس سے ذرا پہلے جہاز سے ایک پرچی نیچے پھینکی گئی جس پر جاوید ہاشمی کانام لکھا تھا۔ یہ نوازشریف کی طرف سے مسلم لیگ نون کے اگلے سربراہ کا تقرر تھا۔الیکشن کمیشن نے کبھی ایسے انتخاب پر اعتراض نہیں اُٹھایا۔ مگر چھوڑئیے!10 دسمبر کی واردات اتنی خفیہ تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جاوید ہاشمی ایک سے زائد مرتبہ اپنی نجی محفلوں میں یہ قصہ سنا چکے ہیں کہ وہ ایک روز ماڈل ٹاؤن جا پہنچے تو اُنہوں نے ماڈل ٹاؤن میں تیار بکسے دیکھے ، اُنہوں نے ان تیاریوں پر قدرے حیرت ظاہر کرتے ہوئے مرحومہ کلثوم نواز سے پوچھا کہ یہ کس چیز کی تیاریاں ہیں؟ کلثوم نواز نے رسان سے جواب دیا کہ بہت دنوں سے مصروفیات میں سامان کی صفائی نہیں ہوئی ، اس لیے ان بکسوں کو دھوپ لگوا رہے ہیں۔بے رحم واقعات کا سورج نصف النہار پر ہے جس کی روشنی میں پوری تاریخ عریاں نظر آتی ہے۔
نوازشریف کے ہاں واقعات اتنے تواتر اور تکرار کے ساتھ یکساں حالت میں ملتے ہیںکہ اُن کی زندگی سے کسی ایڈونچر کی تلاش کی ہی نہیں جا سکتی۔ وہ اپنا 12 اکتوبر 1999ء خود تخلیق کرتے ہیںاور 10 دسمبر2000ء کی واردات بھی بلاہچکچاہٹ کر گزرتے ہیں۔ ڈان لیکس اور اس کے ارد گرد کے حالات 12 اکتوبر 1999ء کے واقعات کا نئے ڈھنگ و آہنگ سے تکرار کر رہے تھے۔اسی طرح نواز شریف کی علاج کے بہانے 19نومبر 2019ء کو لندن روانگی درحقیقت 10 دسمبر2000ء کی واردات کااعادہ تھی۔ہمارے لہنے میں یہی لکھا ہے ۔وقت کا پہیہ پھر گھوم رہا ہے، یہ پھر ہوگا!قدیم یونان کی دانش میں انسانوں کی پہچان اُن کے مختلف ہونے کی وجہ سے نہ ہوتی تھی،بلکہ یہ ایک ہونے کے طفیل تھی۔ نوازشریف کے باب میں بھی یہی ہے۔ البتہ اس بیچ کچھ پس پردہ موسیقی سویلین بالادستی ، ووٹ کو عزت دو وغیرہ وغیرہ کی سنائی دیتی ہے۔ گوارا کر لیں!!
٭٭٭