... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، دسمبر آنہیں رہا،آچکا ہے۔۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں دنیا بھر کی بے تکی شاعری سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔۔دسمبر ہمیں دو وجوہات کی بنا بہت برا لگتا ہے، ایک تو بے تکی شاعری۔۔دوسری شدید سردی۔۔ جی ہاں ۔۔سردی سے ہمیں اینٹ کتے کا ”ویر” ہے۔۔یوں سمجھ لیں جس طرح آپ کو مولی چائے میں ڈبو کرکھانے سے چڑ ہے اس سے زیادہ ہمیں موسم سرما سے بیزاری ہوتی ہے۔۔کچھ لوگوں کو تو یہ موسم بہت ہی زبردست لگتا ہے، نصیبو لعل کہتی ہے۔۔ٹھنڈ پوے گی کلیجے دلدار، تے پیار دی گنڈیری چوپ لے۔۔یہ گانا سن کر ہم یہ سمجھے کہ سردیوں میں اگر گنڈیریاں چوسی جائیں تو شاید سردی کی شدت میں کمی آسکتی ہے، لیکن معاملہ الٹ ہی ثابت ہوا۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔اے سردی اتنا نہ اترا، ہمت ہے تو جون میں آ۔۔انہی کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔پھر وہی موسم آرہا ہے جس میں نہانے سے پہلے دس منٹ تک بالٹی کو گھورنا پڑتا ہے۔۔اس موسم میں تو دل چاہتا ہے کہ یہ اعلان کردیا جائے کہ ۔۔کڑاکے کی ٹھند میں صبح کی گْڈ مارننگ، دن کے 12 بجے تک قبول کی جائے گی۔۔ صبح ٹھنڈا پانی ڈال کر اٹھانا دہشت گردی قرار دیاجائے گا۔۔رضائی کو کھینچنا ملک سے غداری کے برابر ہوگا۔۔اور حکومت سے اپیل کہ نہاتے ہوئے شخص کو چھونے والا بھی نہایا ہوا مانا جائے گا۔۔
سردیوں کے حوالے سے ہمارے محترم دوست شوکت علی مظفرنے ایک زمانے میں کہا تھا۔۔شادی شدہ عورتوں کو سردی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے شوہر کام سے سیدھے گھر ہی آتے ہیں۔ ۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ۔۔ نئی نئی سردی اور بیوی دونوں ہی لڑکوں کو گھروں میں پلٹنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ۔ ہمارے ہاں اکثر علاقوں میں سردیاں بھی شادی کا سیزن سمجھی جاتی ہیں۔ ۔سردیوں میں جدائی اور تنہائی کا دکھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ۔۔سردی کے موسم میں بیوی سے تنگ آئے مَردوں کو بھی شادی ایک نعمت لگتی ہے، کیونکہ اور کچھ نہیں کم سے کم بیگم پانی گرم کرکے تو دے ہی دیتی ہے۔۔آبادی میں اضافے کی ایک وجہ سردی میں”بے احتیاطی” بھی ہے۔۔۔موسم سرما میں اْن مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جہاں گیزر لگا ہو۔۔سردیوں میں پیدا ہونے والے بچے بہت گرم مزاج ہوتے ہیں۔۔ لڑکیوں کو سردی کے باعث سیلفی کیلئے منہ نہیں بنانے پڑتے۔۔اورسب سے دلچسپ تو ان کا یہ کہنا تھا کہ۔۔سردی میں لوگوں کو پیار سے نہیں ، نہانے سے ڈر لگتا ہے صاحب۔۔
سردیاں شروع ہونے سے پہلے مختصر مدت کیلئے ایسا موسم بھی آتا ہے جو اتنا عجیب ہوتا ہے کہ کچھ پہن لیں گرمی اور نہ پہنیںتو سردی محسوس ہونے لگتی ہے۔۔ہمارے پیارے دوست فرماتے ہیں۔۔سردی میں نہانے کیلئے جگر کی نہیں”گیزر” کی ضرورت ہوتی ہے۔۔دفتر میں کام کررہے ہوں اور باہر سے آکر جب کوئی ساتھی ہاتھ ملاتا ہے تو اتنے ٹھنڈے ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ ۔۔بس چھوڑیں جی، دل تو بچہ ہے جی۔۔۔اس موسم میں ناک اس قدر بے حس ہوجاتی ہے کہ کچھ بچوں کو پتہ نہیں لگتا کہ ان کی ”سونڈ’ ‘ نکل رہی ہے۔۔۔بڑوں کی ناک کا بھی یہ عالم ہوتا ہے کہ لگتا ہے کسی نے ناک کاٹ کر ٹماٹر لگادیا ہو وہ بھی بغیر دھوئے۔۔بال ہوں یا چہرہ، خشکی تو اتنی پائی جاتی ہے کہ اتنی خشکی تو زمین پر بھی نہیں پائی جاتی،سردیوں کا دن یوں گزرتا ہے جیسے اسے ہم سے بھی کوئی ضروری کام ہو،ادھر بندہ ظہر کی نماز پڑھ کے گھر نہیں پہنچتا کہ عصر کی اذان ہو جاتی ہے،ابھی عصر پڑھ کر بندہ گھر کا دورازہ ہی نہیں کھولتا کہ مغرب کی نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔۔پھر جب رات ہوجاتی ہے تو پوری رات اسی کشمکش میں گزر جاتی ہے کہ جب کمبل اور لحاف اچھی طرح جسم پر لپیٹ رکھا ہے پھر یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اندر گھس کہاں سے رہی ہے۔۔
وہ دن آرہے ہیں جب لڑکیاں سردی سے مرنے والی ہونگی مگر شادی کی تقریب میں جانے کیلئے جرسی، سوئیٹر یا شال نہیں پہنیں گی۔۔ ریسرچ کرنے والے بتاتے ہیں کہ لڑکیوں کو اس لئے بھی سردی نہیں لگتی کہ وہ ایک دوسرے سے ”جلتی” رہتی ہیں۔۔موسم جب سے تبدیل ہونے لگا ہے گلا اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ بس دو ہی کام بمشکل ہو رہے ہیں ، ایک سانس لینا ‘ دوسرا چائے پینا ۔۔۔سردیوں کی سردراتوں میں گھروالوں کو اپنے بچوں کے کمبل سے ”نور” نکلتا بھی نظر آئے گا۔۔اس موسم میں صبح اٹھنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا، جہاں مکھیوں کی ناراضی کا شدید ترین خطرہ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے، ٹھنڈے یخ پانی سے دو،دوہاتھ کرنے میں جوموت پڑتی ہے یہ اس کے دل سے پوچھیں جو صبح اٹھ کر کام پہ جاتا ہے۔۔اور سردیوں میں تو نہاتے ہوئے ویسے ہی موت پڑجاتی ہے اس لیے زیادہ نہانے سے اکثر گریز ہی کیا جاتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔سردیوں میں اچھی بیوی کے علاوہ چارپائی کے ساتھ چارجر سوئچ ہونا بھی بہت بڑی نعمت ہے۔۔
دن چھوٹے اور خاندان بڑے ہونے کے دن آ رہے ہیں۔۔کیونکہ زیادہ تر شادیاں سردیوں میں ہی طے پاتی ہیں۔۔ ایسا موسم شروع ہورہا ہے،جس میں بڑے بڑے عقلمند کنوارے، بڑے بڑے بیوقوفانہ فیصلے یعنی شادی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔۔ عقلمند حضرات اس موسم کے شروع ہوتے ہی گرم کپڑے نکالتے ہیں جبکہ کنوارے شادی کا کارڈ۔۔سردیوں کی شام تھی ،نوجوان نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تو وہ گرم تھی،نوجوان بولا، گرم ہاتھ وفا کی نشانی ہوتے ہیں ۔۔وہ ہنس کے بولی۔۔”ہن جُتی کھائے گا،کتے مینوں بخار اے۔۔” ۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔اگر سردیوں میں آپکی ایڑیاں بہت زیادہ پھٹتی ہیں اور کسی قسم کی کریم لگانے سے بھی ٹھیک نہیں ہوتیں تو آپ سوئی دھاگہ لے کر انکو سی لیں۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔اگر آپ کو زیادہ سردی لگ رہی ہے تو ہاتھوں پیروں کی پٹرول سے مالش کرکے ہیٹر پہ سینکیں، سردی لگنا بند ہو جائے گی۔۔سردیاں شروع ہوتے ہی ہمیں الرجی ہوجاتی ہے،نزلہ زکام کی اتنی عادت ہوجاتی ہے جب تک پانچ چھ چھینکیں ایک ساتھ نہ آئیں،طبیعت بہتر ہی سمجھتا ہوں۔۔کہتے ہیں۔۔ کراچی میں سال میں صرف دس ماہ گرمی ہوتی ہے،باقی دو ماہ سردی نہیںبلکہ شدید گرمی ہوتی ہے۔۔ہمیں سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ لوگ کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں جنہوں نے زندگی بھر کراچی یا خبروں میں دیکھا یا ڈراموں میں۔۔سردیوں کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ ۔۔ بھئی ہمارے ہاں تو سردیاں ہوتی ہی نہیں۔ صرف دو موسم ہیں موسم گرما شدید اور موسم گرما لطیف۔۔
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔تمہاری روح کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مرض نہیں کہ تم خود کو کامل سمجھنے لگو۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔