... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ریاستوں کی توجہ معاشی بہتری کے لیے برآمدات بڑھانے اور انفراسٹرکچر بہتربنانے پر ہے لیکن کیا معاشی بہتری کی کاشوں سے دفاعی تیاریاں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہیں ؟اِس سوال کا ہاں میں جواب نہیں دیاجاسکتا کیونکہ سچ یہ ہے کہ آج بھی ریاستوں کی پہلی ترجیح دفاع ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کچھ عرصہ تک ایک ہی طاقت کاراج رہا مگر اب واحد طاقت کا تاثرنہیں رہا۔روس کے ساتھ چین کابھی چیلنج درپیش ہے۔ دراصل طاقتور ممالک کسی اصول و ضابطے کی پاسداری نہیں کرتے بلکہ من مانی کرتے ہیں تاکہ اسلحہ کی تجارت میں اضافہ ہو، اسرائیل طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یواین او کے طے معیار کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کررہا ہے لیکن روک ٹوک کے بجائے امریکہ اور مغربی ممالک حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ اسی بناپر متبادل کی متلاشی خوفزدہ ریاستیں روس اور چین کی طرف دیکھنے لگی ہیں۔
رواں ہفتے روسی صد رولادی میرپوٹن سخوئی 35ایس لڑاکا طیاروں کے حصار میںطویل عرصے کے بعد سوویت یونین سے باہر ایک غیر معمولی دورے پرنکلے اوربدھ چھ دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے ابو ظہبی ائیرپورٹ پہنچے۔ عرب امارات کی حدودمیں داخل ہوتے ہی متعدد فوجی طیاروں نے استقبال کیا ۔گارڈ آف آنر کی تقریب کے بعدفضائی شومیں روسی جھنڈے کو رنگوں سے سجایا گیا۔ شیخ محمد بن زاید النیہان سے صدارتی محل میں ملاقات کے دوران پوٹن نے یو اے ای کو عرب دنیا میں روس کا اہم تجارتی شراکت دار قراردیتے ہوئے کہاکہ آج آپ کی قیادت میں ہمارے تعلقات غیر معمولی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ بعدازاں روسی صدر سعودی دارالحکومت ریاض گئے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان سے ملاقات کی۔ ریاض میں بھی اچھا استقبال ہوا۔بات چیت میں تیل ،غزہ کی صورتحال اور یوکرین کا معاملا سرفہرست رہااور ماہرین صدر پوٹن کے دورے کو عالمی سطح پر روسی ساکھ بحال کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں لیکن اِس دورے میں عربوں کو اسلحہ دینے کے امکانات کا خاص طورپر جائزہ لیا گیا ۔پوٹن کے وفد میں تیل،معیشت ،خارجہ امور ،خلا او رنیوکلیئرتوانائی کے حکام شامل ہیں۔ تیل ، غزہ پر حملے کے علاوہ شام اوریمن مسائل پر بھی فریقین نے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ روس مشرقِ وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھانے اور صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کے چکر میں ہے اوریوکرین جنگ کی وجہ سے مغرب میں تنہائی کا سامنا کرنے والے پوٹن مشرقِ وسطیٰ میں اسلحہ کے بڑے خریداروں اور اتحادیوں کی تلاش میں ہیں۔ بظاہر تیل ،تجارت اور غزہ تنازع پر گفتگوبتائی جارہی ہے مگرحالیہ دورہ دراصل امریکہ ،مغرب اور اسرائیل کے خلاف بننے والی رائے عامہ سے فائدہ اُٹھانے کی کاوش ہے۔ امریکہ کے عالمی رسوخ کی بڑی وجہ دفاعی طاقت اور ہتھیار ہیں ۔ اسلحے کی تجارت کرنے والی دنیا کی سو بڑی کمپنیوں میں سے بیالیس امریکی ہیں۔ اگر گزشتہ برس کے اعدادو شمار کاجائزہ لیں تو 597 ارب ڈالر کے گولہ وبارود اور اسلحہ کی خریدوفروخت ہوئی جن میں امریکی کمپنیوں کا حصہ 51فیصد کے لگ بھگ ہے۔ انھوں نے اسلحہ بیچ کر 302ارب ڈالر کمائے ۔حالانکہ کچھ خریدارممالک ایسے بھی ہیں جو اسلحہ خریدتے ہیں لیکن استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ نہیں کہ استعمال کی استعداد نہیں بلکہ ہتھیاروں کے بھاری ذخائر کے باوجود خوفزدہ ہیں ۔اسی لیے براہ راست خطرات نہ ہونے کے باوجود اسلحہ کے لیے وسائل وقف کرنے پر مجبور ہیں ۔
دفاعی حوالے سے پریشان ریاستیں عالمی طاقتوں کی اِس حد تک آلہ کار ہیں کہ ریاستی مفاد کا تحفظ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اِن کے پاس ہتھیاروں کے بھاری ذخائر ہیں لیکن آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہیں ۔کچھ ممالک تو ایسے ہیں جنھیں لاحق خطرات کی نوعیت غیر معمولی نہیں اور نہ ہی یہ جدید ہتھیار استعمال کرنے میں طاق ہیں۔ پھر بھی دفاعی سازوسامان خریدنے کی بناپر عالمی طاقتوں کی مجبوری ہیں۔ دنیا میں بھارت،اسرائیل ،سعودیہ ،قطر اور مصر ایسے ہی ممالک ہیں مشرق ِ وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات ،مراکش ،عراق بحرین ،اردن اور الجزائر بھی ہتھیار جمع کرنے میں پیش پیش ہیں لیکن بھارت اور اسرائیل کے سوا دیگر کئی ممالک کے دفاع میں ہتھیاروں کا کوئی کردار نہیں۔ دراصل دفاع کے لیے یہ پریشان ریاستیں زورِ بازو پر بھروسہ کرنے سے زیادہ عالمی طاقتوں سے سودے بازی کوسہل تصور کرتی ہیں۔ سعودیہ گزشتہ چار برس سے دنیا میں ہتھیار خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن دفاع کے عوض ڈالرمیںتیل کی تجارت کا معاہدہ امریکہ سے کر رکھا ہے۔ اسی طرح عرب امارات کو بھی ایران سے دفاع کی پریشانی نے اسرائیل کی جھولی میں گرایا ہے لیکن عالمی طاقتیں یہاںکے وسائل کا تیا پانچا کررہی ہیں جس کا اِن ممالک کو ادراک نہیں یا اگر ادراک ہے بھی تو جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھنے پرمجبور ہیں ۔
امیر ممالک کی بڑے پیمانے پرہتھیار خریدناسمجھ میں آتا ہے کیونکہ اُن کے پاس دولت ہے لیکن ایسے ممالک جن کی معیشت ناہموار ہے اور بڑھتی مہنگائی سیاسی عدمِ استحکام کا باعث ہے۔ اُنھیںبھی ہتھیارحاصل کرنے کا روگ ہے۔ پاکستان اور ایران ایسے ہی ممالک ہیں جو ہتھیار بنانے اور خریدنے میں شب وروزمصروف ہیں۔ پاکستان جیسے جوہری ملک کی دفاع کے حوالے سے پریشانی ناقابلِ فہم ہے۔ اگر بیرونی خطرات کاکھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو جوہری طاقت بننے کے بعد اب کوئی بیرونی قوت جارحیت نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی حدتک اندرونی خطرات ہیں جن کا توڑ معیشت بہتر بنانے اور سیاسی عدمِ استحکام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بھی پریشان ہیں، حالانکہ تمام عالمی اِدارے پاکستان کے جوہری پروگرام کوہرحوالے سے محفوظ قراردیتے ہیں پھربھی پریشانی برقرارہے۔ اسی پریشانی کی وجہ سے امریکہ اور چین کی حاشیہ برداری پرمجبورہے جبکہ عالمی پابندیوں کا شکار ایران ڈرون ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کا اہم ترین ملک ہے۔ وہ بھی امریکی خوف سے روس ، چین کی ہاں میں ہاں ملاتا اور اپنے وسائل لُٹتے دیکھ کر خاموش ہے ۔ دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں یہ جو لڑائیاں چل رہی ہوتی ہیں جس کے پسِ پردہ عالمی طاقتیں ہوتی ہیں کیونکہ لڑائی نہ ہوتو اسلحہ تجارت خطرناک حدتک کم ہوسکتی ہے، اسی لیے دفاع کے حوالے سے پریشان ریاستوں کے لیے لڑائی کراکے مزید پریشان کُن صورتحال پیداکرنا عالمی طاقتوں کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اسلحہ کی تجارت کے لیے ماحول سازگار رہے بلکہ پریشان ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے میں آسانی ر ہے۔ روس بھی مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کے چکرمیں ہے ۔
خطرات کی نوعیت کا ادراک درست فیصلے کا موجب بنتا ہے ترکیہ کے صدر کے لیے پریشان کُن حالات پیداکرنے کے لیے امریکہ گزشتہ عشرے سے کوشاں ہے۔ فتح اللہ گولن کے ذریعے ایردوان حکومت کو ہٹانے کی سازش کی گئی جبکہ بائیڈن نے صدربننے سے قبل ایردوان کو اقتدار سے باہر کرنے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔جاسوسی کی پاداش میں پابندِ سلاسل Brunsonپادری کی رہائی کے لیے اِس حد تک دبائو ڈالا کہ ترکیہ کو سبق سکھانے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ یورپی یونین کے ممبردس ممالک کے سفیروں نے ترک بزنس مین عثمان کی رہائی کے لیے اپنے مرتبے کا غلط استعمال کیا۔جس پرصدر ایردوان نے مذکورہ سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دے کرترکیہ سے نکل جانے کا حکم دیا ۔آخر کارمذکورہ ممالک نے معذرت کی اور سفارتی تعلقات خراب ہونے سے بچائے، حالانکہ ترکیہ نہ صرف نیٹوکا ممبر ہے بلکہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور یورپی یونین کا ممبر بننے کا خواہشمند ہے ۔اِس کے باوجود کسی قسم کے دبائو کوخاطر میں نہیں لاتابلکہ آزادانہ فیصلے کرتا ہے، وہ روس و چین سے بھی تجارتی و دفاعی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اورکسی ایک طاقت کا آلہ کاربننے پر آماد ہ نہیں۔ یہی طرزِ عمل اُسے اقوام ِ عالم میں باوقار حیثیت دلانے کا باعث ہے ۔دفاع کے حوالے سے پریشانی کا شکار ریاستیں بھی اگرسمجھتی ہیں کہ عالمی طاقتوں کی آلہ کار بن کر لاحق خطرات ختم کرلیں گی تو یہ سوچ درست نہیں۔ حقیقت میںخطرات کم کرنے ہیں تو کچھ نیا اور منفرد کرنا ہوگا۔ وگرنہ ڈھیروں ہتھیاروں کے باوجود اسرائیل جیسا ایک چھوٹا سا ملک جس طرح بے لگام اور یواین او چارٹر کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ ایسے حالات کا مستقبل میں کسی بھی خطے میں خدشہ موجودرہے گا۔ اِس لیے لازم ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے حکمران ریاستی مفاد کو مقدم رکھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔