وجود

... loading ...

وجود

قرضوں کا بوجھ اور ترجیحات

جمعرات 30 نومبر 2023 قرضوں کا بوجھ اور ترجیحات

حمیداللہ بھٹی

پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اِس حدتک بڑھ گیا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق صرف غیر ملکی قرضے ہی چونسٹھ ہزار ارب سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اگر ملکی قرضوں کو بھی شمار کرلیں تو واجب الاداقرض سوا لاکھ ارب سے زائدہے۔ یہ رقم ملک کی کل معیشت سے بھی زیادہ ہے یہ صورتحال خاصی تشویشناک ہے لیکن واجب الاداقرض کی ادائیگی کیسے اور کہاں سے کرنی ہے؟ ملک کے ارباب اِختیار اب بھی توجہ نہیں دے رہے بلکہ وقت گزاروپالیسی رائج ہے۔ اگر صورتحال کا ادراک ہوتا تو مزید قرض لینے کا سلسلہ موقوف ہوچکا ہوتا۔اب تو صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ قرض کی ادائیگی کے لیے بھی مزید قرض لیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے حصول کے لیے کڑی سے کڑی شرائط تسلیم کی گئیں اورپھر قرض کا معاہدہ ہونے پر خوشیاں منائی گئیں۔ اب عالمی بینک ،ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لیے بھاگ دوڑ جاری ہے۔ مگر اِس کے باوجود زرِ مبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا۔اگر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی بات کریں تو یہ بمشکل 13.3ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اِس میں بھی پانچ ارب بیالیس کروڑ ڈالر کمرشل بینکوں کے ہیں۔اسی بناء پر عالمی مالیاتی اِدارے پاکستان کی معاشی حالت خراب قراردیتے ہیں کیونکہ ادائیگی کی صلاحیت کم ہوگئی ہے ۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ دسمبر کے آخر تک دوارب ڈالر کا نیا قرضہ مل جائے گا جسے غنیمت جان کر ابھی تو سب اِس وجہ سے خوش ہیں کہ اِس طرح 13.3 ارب میں دوارب ڈالر مزید شامل ہونے سے زرِ مبادلہ کے مجموعی ذخائر پندرہ ارب ڈالر سے زائد ہوجائیں گے مگر تشویش کی اصل بات یہ ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران غیرملکی قرضوں اور سودکی ادائیگی کے لیے پاکستان کو پچیس ارب ڈالر درکار ہیں یہ ٹارگٹ کیسے حاصل کرنا ہے؟ بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ بدامنی اور توانائی کے بحران نے ملک کے پیداواری شعبے پراِس حدتک مُضر اثرات مرتب کیے ہیں جس سے برآمدات میں کمی آتی جارہی ہے درآمدات سے برآمدات بڑھائے بغیر خسارے پر قابو نہیں پایا جاسکتا اورنہ ہی اِس کے سوا زرِمبادلہ کے غیر مستحکم ذخائر کو مستحکم کیا جا سکتاہے یہ درست ہے کہ ابھی تک جیسے بھی ممکن ہے حکومت غیر ملکی قرض کی ادائیگیاں کررہی ہے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکتا جب تک قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے ترجیحات کا تعین زسرے ِ نو نہیں کیا جاتا جس کے لیے ضروری ہے کہ برآمدی شعبے کے لیے سہولیات میں اضافہ کیا جائے اور صنعتوں و زرعی مقاصد کے لیے بجلی و گیس کی قیمتوں میں کم کی جائیں پیداواری لاگت کم ہونے سے ہی عالمی مارکیٹ میں پاکستانی اشیا توجہ حاصل کرسکتی ہیں ۔
آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اِدارے دیے گئے قرض کی وصولی کے حوالے سے بے چینی کا شکار ہیں اسی لیے نہ صرف مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں کبھی توانائی کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی ہدایات دیتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف اور ایف بی آر میں مذاکرات بھی ہورہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمران مالیاتی اِداروں کی تمام شرائط تسلیم کرنے کی بجائے اپنی ضروریات اور مجبوریاں بھی بتائیں اور ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہوئے عام آدمی کی مشکلات پیشِ نظر رکھیں ۔توانائی کی قیمتیں توپہلے ہی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کی ہدایات پر مزید اضافہ کیا جاتا ہے تو پیداواری لاگت بڑھنے سے پاکستانی مال مہنگاہوجائے گا اور عالمی منڈی میں مقابلے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایات پر چلتے رہے تو پاکستان بیرونی مال کی منڈی بن سکتا ہے جب تک اربابِ اختیار فرائض کی ادائیگی سے زیادہ عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایات پر من و عن عمل کرتے رہیں گے، ملکی برآمدی مفاد کا تحفظ نہیں کیا جاتا، تب تک قرضوں کے بوجھ میں کمی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اِس وقت حکمران عوام کے منتخب نہیں اسی لیے عوامی مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور عوام کے نمائندے نہ ہونے سے اُن کے مسائل بتانے والا بھی کوئی نہیں جس سے صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے ۔علاوہ ازیں پاکستان میں بچت کی شرح خطے میں سب سے کم ہے۔ ہر برس مفت تیل،مفت بجلی ورہائش وغیرہ کی مدمیں اشرافیہ کی نظر سترہ ارب ڈالر کردیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ بڑے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کی تنخواہیں انتہائی امیر اور ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیںجن میں مناسب حد تک کمی سے کثیر رقم بچائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ملک کی پتلی معاشی حالت کے پیش نظر منظورِ نظر شخصیات کو غیر ملکی رقم میں تنخواہ و پنشن کی ادائیگی کا بھی کوئی جواز نہیں۔ مزیدیہ کہ جو ملازمت کا عرصہ پوراکرتا ہے تو اُسے صرف اُس وقت تک ہی پنشن دی جائے جب تک ملک میں رہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک رہائش پزیر ہوجائے اُس کی پنشن ختم کرنے سے نہ صرف بڑی بچت ہو سکتی ہے بلکہ برین ڈرین کا سلسلہ بھی روکا جا سکتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کے مطابق ترجیحات کا تعین کیا جائے۔
چین کے مہنگے ترین منصوبوں سی پیک کے بعد آجکل سعودیہ اورامارات کی طرف سے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی باتیں ذرائع ابلاغ کی زینت ہیں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے مگر اربابِ اختیار کو چاہیے کہ شخصی مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو پیش نظر رکھاجائے ۔ہر وقت سی پیک کا راگ گانے والے مت بھولیں کہ چین ہمیں پوری دنیا سے مہنگے قرضے دے رہا ہے ۔حالانکہ سی پیک کے تحت زیرِ تکمیل زیادہ ترسڑکوں اور ریل کے منصوبے اُس کی اپنی مجبوری ہیں۔ سی پیک کی آڑ میںچین نے پاکستان کواپنے مال کی منڈی بھی بنادیا ہے۔ مزید طرفہ تماشا یہ کہ چین نے کمال ہوشیاری سے اپنی ضرورت کے منصوبوں پر آنے والی لاگت بھی پاکستان کے ذمے ڈال دی ہے جس سے ملک پر واجب الاداقرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے، ایسی دوستی اور سرمایہ کاری جو پاکستان کے لیے فائدہ مندنہ ہو بلکہ ملکی معیشت کو نچوڑ کر رکھ دے سے گریز کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ کسی اور ملک کے مفاد کی نگہبانی کے بجائے بیرونی سرمایہ کاری کوملکی ضرورت کے مطابق یقینی بنائیں۔ اگر چین کی طرح اب سعودیہ اور امارات نے بھی سرمایہ کاری کی آڑ میں ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنی اور معدنیات پرہی ہاتھ صاف کرنے ہیں تو قرضوں کا بوجھ بڑھانے کی بجائے خودانحصاری کی پالیسی نافذکی جائے۔ ریکوڈک جیسے قیمتی منصوبوں کے حوالے سے بھی عجیب افواہیں گردش کررہی ہیں۔ معدنی وسائل کی بندربانٹ ملکی مفاد کے منافی ہے۔ اگر قرضوں کا بوجھ کم کرناہے توبہترہے اپنے وسائل اور استعداد سے کام لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عشق حقیقی وجود بدھ 15 جنوری 2025
عشق حقیقی

جیل کی موت یا کٹھ پتلی وزیر اعظم وجود بدھ 15 جنوری 2025
جیل کی موت یا کٹھ پتلی وزیر اعظم

لب ڈوبا ہوا ساغر میں ہے وجود منگل 14 جنوری 2025
لب ڈوبا ہوا ساغر میں ہے

دائرے میں سفر وجود منگل 14 جنوری 2025
دائرے میں سفر

ملک کی بقا اور سلامتی کا راستہ وجود منگل 14 جنوری 2025
ملک کی بقا اور سلامتی کا راستہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر