... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ضلع گجرات صوبہ پنجاب کا سرحدی ضلع ہے یہاںکی بڑی تعداد بسلسلہ روزگاربیرونِ ملک ہے صوبے کے دیگرشہروں سے زیادہ یہاںخوشحالی و آسودگی ہے ضلع کے شہروں سے لیکر دیہات میں بھی بڑے بڑے محلات ہیں، سڑکوں پر دوڑتی مہنگی گاڑیاں صاحب ِ ثروت مالکان کی مالی آسودگی کی عکاس ہیں۔ یونیورسٹی سے لیکر میڈیکل کالج ہے جہا ں سے فارغ التحصیل ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں لیکن چند ماہ سے اِس ضلع کوکِسی کی ایسی نظر لگی ہے کہ امن و سکون کا گہوارہ یہ ضلع تاریخی بدامنی کا شکار ہے چوریاں ، ڈاکے معمول ہیں قتل کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوگیاہے جس سے ڈاکٹر،وکلا ،صنعتکار اورعام آدمی سبھی بے چین ہیں لیکن جب پولیس کے معمولات پر نظر ڈالتے ہیں تو اطمنان کے سواکچھ محسوس نہیں ہوتا ۔
ڈی پی او گجرات اسد مظفر یہاں دوسری مرتبہ تعینات ہوئے ہیں ۔اُن کی پہلی تعیناتی کے دوران بھی صورتحال مثالی تو کیا تسلی بخش بھی نہیں تھی اور بڑھتے جرائم پر ہی وہ یہاں سے تبدیل ہوئے تھے لیکن تمام تر ناکامیوں ،نالائقیوں اور نااہلیوں کے باوجود کسی تگڑی سفارش پر دوبارہ ڈی پی اوگجرات جیسے اہم منصب پر براجمان ہیں ۔اِس میں پنجاب حکومت کی کیا مجبوریاں ہیں؟ سمجھ سے بالاتر ہیں وگرنہ تیس لاکھ آبادی پرمشتمل خوشحال ضلع میں کوئی اہل ،زمہ دار اور باصلاحیت آفیسربھی تعینات کیا جاسکتاتھاجو گجرات کو امن کاگہوارہ بناتا اور صوبائی حکومت کی نیک نامی کا باعث بنتا لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے جائیدادوں پر قبضوںکے واقعات میں دوبارہ تیزی آگئی ہے اوریہ قبضے پولیس سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ آتشیں اسلحہ کی نمائش عام اور فائرنگ روزکا معمول ہے ضلع کے طول و عرض میں چوروں وڈکیتوں کاراج ہے مگر پولیس خاموش تماشائی ، ضلع میں پچیس تھانے اور اٹھائیس چوکیاں ہیں جہاں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کی ہدایات عام دی جاتی ہیں لیکن سربراہ سے لے کر ماتحت اہلکاروں کی اصل فرائض کے حوالے سے کارکردگی صفر ہے البتہ امن کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں جیسے شب و روز فرائض کی ادائیگی میں گزرتے ہوں حالانکہ کئی تھانے اور چوکیاں ایسی ہیں جہاں دن دس بجے تک کوئی اہلکار تک نہیں ہوتا جس کی بناپر جرائم پیشہ عناصر بلا خوف وخطر انسانی جان و مال سے کھیل رہے ہیں، اندھیر نگری چوپٹ راج کی پردہ پوشی کے لیے چند قصیدہ گو یہاں کے ضلعی پولیس آفیسر کو دبنگ اورکرائم فائٹرلکھ کر اپنے الفاظ کے دام کھرے کرتے ہیں مگر وزیرِ اعلیٰ پنجاب جنھیں محسن ا سپیڈکا لقب دیا جاتا ہے کو اگر کبھی فرصت ملے تو گجرات کے حالات جاننے کی کوشش کریں تاکہ اُنھیں معلوم ہو کہ ہر دم متحرک صوبائی حکومت کی نیک نامی یہاں کیسے خاک میں ملائی جارہی ہے۔
امن و امان قائم رکھنے میں سنجیدہ اور جرائم پیشہ لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے پُرعزم پولیس آفیسر ہمیشہ نیک نام اور شرفا سے مراسم رکھتے ہیں تاکہ بدنامی کے پہاڑ نہ بنیں مگر جب قتل جیسے واقعات میں ملوث لوگ خاص رفقا میں شمار ہوں اور جیلوں سے رہا ہونے والے مجرمانہ پس منظر کے حامل لوگوں سے ہدایات لی جائیں اور خواتین کے کاروبار سے وابستہ ہم رکاب، تو امن دشمن عناصر تقویت پاتے ہیں۔ گجرات میں ایسا ہی ہورہا ہے، سیاسی لبادہ اُڑھے گُرگے پولیس سے مل کر جائیدادیں چھینتے ہیں، تھانہ ککرالی میں دوالگ الگ مقدمات نمبری414/23اور435/23 کے دوران پولیس کی ملی بھگت سے دن دیہاڑے قبضے ہوئے اور جب متاثرہ فریق شکایت لیکرتھانہ گئے تودادرسی کی بجائے پولیس نے اُلٹاانھی پر مزید مقدمات بنا دیے، تنگ آکر ایک مدعی نے ناجائز تعمیر دیوار گرادی تو پولیس نے موٹر سائیکل جلانے اور گاڑی توڑنے کا مقدمہ بنا دیا حالانکہ ایسا کوئی وقوعہ سرے سے ہو اہی نہیں ،اسی طرح ڈب ڈالیہ میں دن دیہاڑے ضیاء اللہ کے مکان پر قبضہ کرنے کے دوران گھر سے قیمتی اشیا چر الی گئیں جس کی بابت پولیس کو عرض گزاری گئی تومتعلقہ تھانہ ٹانڈہ نے وقوعہ درست قرار دیتے ہوئے ڈی پی اوگجرات سے اندراج مقدمہ کی اجازت طلب کی مگر اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا گیا، وجہ قبضہ گروپ کا تعلق ایک بڑے سیاسی گھرانے سے ہوناہے یہ تو محض تین واقعات کا ذکر ہے گجرات میں ایسے واقعات معمول ہیںلیکن کبھی کسی متاثرہ کی شنوائی ہوتی علم میں نہیں آئی۔
ڈیوٹی پرجاتے کھاریاں سی ایم ایچ کے اسسٹینٹ پروفیسر ڈاکٹر زیشان انور کوگجرات کی مصروف ترین شاہراہ پردن دیہاڑے عین 1122 دفتر کے سامنے تھانہ سول لائن کی حدود میں قتل کرنے کے بعد دونوں قاتل بڑے آرام سے ایسے راستے سے فرار ہوئے جس میں چوکی جٹووکل ، تھانہ اے ڈویژن ،تھانہ لاری اڈا ،تھانہ صدر گجرات اور چوکی غازی چک آتے ہیں چندمنٹوں میں قتل کے وقوعہ کی سوشل میڈیا پر وائرل ریکارڈنگ کو ساراشہر دیکھ لیتا ہے لیکن امن و امان قائم کرنے کی زمہ دار پولیس لا علم رہتی ہے حالانکہ بروقت ناکہ بندی سے ملزمان کو باآسانی گرفتارکیا جا سکتاتھا مقتول ڈاکٹرزیشان انور گھر کا واحد کفیل اورچار بچوں کا باپ تھا جن کی عمریں بارہ برس سے لیکر چھ ماہ ہیں وہ بطورلیکچرار اِس حد تک رحمدل تھے کہ طالب علموں کواکثرفیس کے پیسے تک اُدھار دے دیتے اور کہتے اگر گنجائش ہوئی تو ادائیگی کر دینا وگرنہ میری طرف سے معاف ہیں مقتول کی والدہ تعزیت کے لیے آنے والوں سے روروکرکہتی ہیں کہ اگرقاتل گرفتارہوئے توپوچھوں گی کہ میرے معصوم بیٹے نے تمہارا کیا بگاڑاتھامگر پولیس گرفتاری کی بجائے طفل تسلیوں تک محدودہے حالانکہ یہ گرفتاری قتل کے محرکات جاننے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کہیںبھتہ نہ دینے کی پاداش میں تو نہیں ماردیاگیا؟
بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ایک بے گناہ اور شفیق ڈاکٹر کی ہلاکت پر ڈاکٹر کمیونٹی سراپا احتجاج ہے ابتدامیں ڈی پی اونے گرفتاری کے لیے چوبیس گھنٹے کی مُہلت لی مگر آج بارہواں دن ہے تاحال دونوں قاتل آزادہیں حالانکہ قاتلوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے جس میں دونوں کے چہرے واضح ہیں اُن کے فنگر پرنٹ پولیس کے پاس ہیں ڈی پی او اسد مظفر کا بھی دعویٰ ہے کہ ملزمان کے قریب پہنچ چکے لیکن جانے کیا مجبوری ہے جو گرفتاری سے پہلو تہی کی جارہی ہے تنگ آکر ڈاکٹر زاہد مقصود،ڈاکٹر سعود افضل کی قیادت میں گجرات کے سرکاری اور پرائیویٹ ڈاکٹرز دھرنا دے چکے ہیں اِس دوران پی ایم اے پنجاب کے صدرڈاکٹر کرنل ر غلام شبیر بھی اُن کے شانہ بشانہ ہیں جس سے خدشہ ہے کہ ملزمان کی عدم گرفتاری کی صورت میں یہ تحریک پنجاب تک وسیع ہو سکتی ہے ایسے حالات میں جب ڈاکٹرز نے آئوٹ ڈور شعبے
میں علاج بندکردیا ہے ڈی پی او کسی قسم کی تسلی دینے کی بجائے رُکھائی سے کہتے ہیں جائو دھرنا دے لو میں دھرناختم کرنے پر مجبور کر دوں گا۔ گجرات جیسے پُرامن سرحدی ضلع میں بڑھتے قتل اور وارداتوں کی بھرمار پولیس کی نااہلی اور نالائقی کا نتیجہ ہے پولیس سربراہ اِس حد تک جانبدار ہیں کہ ملتے ہوئے بھی خاص و عام میں تفریق کرتے ہیں یہ رویہ عام آدمی کی پولیس سے نفرت بڑھانے کا باعث ہے ۔
چنددن قبل سرائے عالمگیر میں دو ریکارڈ یافتہ افراد پولیس نے پکڑ کر ایک جعلی مقابلے میں مار دیے ابتدا میں اِس مقابلے کو بھی ایسا رنگ دینے کی کوشش کی گئی جیسے ڈاکٹر زیشان انور کے قاتل مارے گئے ہوں مگر جب ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم ڈی این اے کے ذریعے تصدیق کرائیں گے تو پولیس نے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے مرنے والوں پر کچھ اور کیس ڈال دیے مقتول ڈاکٹرکے قتل کا انصاف طلب کرنے پر ڈاکٹرز سے ڈی پی او کہتے ہیں آپ ہمیں ڈی ٹریک کررہے ہیں زرادل پر ہاتھ رکھ کر آپ ہی بتائیے گجرات جیسے سرحدی ضلع میں چوریوں ،ڈکیتیوں اور قبضوں کی خوفناک شرح کے ساتھ بڑھتے قتلوں سے پولیس کارکردگی سوالیہ نشان نہیں بن چکی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔