... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،مذاق میں اگر کام کی بات نہ ہوتو ہم اسے وقت کا زیاں سمجھتے ہیں،فی زمانہ وقت کی بڑی اہمیت ہے، لیکن ہم بطور قوم وقت کی قدر بالکل بھی نہیں کررہے۔ہمارے ملک کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں طبی پروفیشنلز کی کمی کے باوجود خواتین ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد ملازمت نہیں کرتی حالانکہ حکومت پبلک سیکٹر کی جامعات میں میڈیکل کی تعلیم پر اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کررہی ہے۔سروے کے نتائج کے مطابق ایک طرف پاکستان میں قابل ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے جبکہ دوسری طرف 36 ہزار سے زائد خواتین ڈاکٹرز یا تو بے روزگار ہیں یا وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کررہی ہیں۔سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت پاکستان میں 104974 خواتین میڈیکل گریجویٹس موجود ہیں جن میں سے 68209 (65فیصد) مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں طبی خدمات فراہم کررہی ہیں جبکہ 15619(14.9فیصد) خواتین ڈاکٹرز کام نہیں کررہی ہیں اور مجموعی تعداد کا 20.1 فیصد 21146 خواتین ڈاکٹرز مکمل طورپر لیبر فورس سے باہر ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک اوسط پرائیویٹ یونیورسٹی میں میڈیکل کے طلبا ء سے 50 لاکھ روپے سے زائد فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ حکومت 10 لاکھ روپے سے بھی کم میں وہی تعلیم فراہم کرتی ہے، اس طرح ایک ڈاکٹر بنانے کے لیے حکومت کو کم از کم 40لاکھ روپے سے زائد کی سبسڈی دینا پڑرہی ہے، بھاری سبسڈی کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون ڈاکٹر کام نہیں کررہی، موجودہ مالیت کے مطابق تقریباً 50 ہزار خواتین ڈاکٹرز پر ہونے والی کم از کم 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے۔ڈائریکٹر پالیسی ریسرچ پرائیڈ ڈاکٹر شاہد نعیم کے مطابق ہر 5 میں سے ایک میڈیکل گریجویٹ لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کرتا ہے اور لبیر فورس سے باہر خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے زیادہ ترشادی شدہ ہیں، حکومت قیمتی زرِمبادلہ بچانے کیلئے پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالجز میں سیٹیں مختص کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے، میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین میڈیکل گریجویٹس یا ڈاکٹرز کا لیبر فورس سے باہر رہنا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ لیبرفورس سے باہر 21146 خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے 76 فیصد شادی شدہ ہیں جبکہ عمر کے لحاظ سے 25سے 34سال کی خواتین میڈیکل گریجویٹس کا تناسب سے زیادہ 54فیصد ہے۔سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں شادی کیلئے مناسب رشتہ تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔سروے میں ان خواتین میڈیکل گریجویٹس کو شامل کیا گیا تھا جنہوں نے بی ڈی ایس، ایم بی بی ایس، ایم فِل، ایم ایس یا ایم ایس سی یا طب کے کسی بھی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہو۔
لڑکیاں جوان ہوں تو ان کے رشتے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔شہروں میں تو اکثریت لڑکی کی قبولیت سے شادی ہوتی ہے ،لڑکیوں کے لئے کس قسم کا رشتہ قبول کیا جائے، اس حوالے سے باباجی نے ہمیں کچھ ٹپس دی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ۔۔تنخواہ لینے والے یا ملازمت کرنے والے مرد کا انتخاب کرتے وقت، آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ مخصوص آمدن میں مہینے کا آخر مشکل ہوگا۔ اگر آپ نے ایک کاروباری شخص کا انتخاب کیا ہے جو آپ کی معاشی دیکھ بھال کر سکتا ہے اور آپ کے گھر کا مکمل انتظام چلا سکتا ہے تو آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ وقت نہیں دے سکے گا۔ اگر آپ ایک فرمانبردار اور شریف شوہر کا انتخاب کرتی ہیں، تو آپ کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ وہ آپ پر منحصر ہے اور آپ کو اس کی ضروریاتِ زندگی کو یقینی بنانا چاہیے۔ عورت کو گھر کا نظام چلانا ہوگا اور کما کر لانا ہوگا۔اگر عورت ایک پڑھے لکھے اور پیسے والے شخص سے شادی کرتی ہے تو اسے یہ قبول کرنا ہوگا کہ اسے اپنی رائے کو بہت دفع مارنا پڑے گا،اور اپنی مرضی کو بھی بہت دفعہ قبر میں اتارنا پڑے گا۔اگر آپ ایک لچھے دار اور رومانی باتیں کرنے والا مرد چاہتی ہیں تو یاد رکھیں اس کی یہ فطرت مستقبل میں بھی اس کے ساتھ رہے گی پھر چاہے وہ رومانی باتیں سننے کے لیے آپ کے کان ہوں یا کسی اور کے۔ اگر آپ ایک خوبصورت مرد کا انتخاب کرتی ہیں، تو اس کے نخرے بہت ہوں گے لیکن اس کا دل بھی اتنا ہی خوبصورت ہو گا،کیونکہ ایسی شخصیات کو کمپلیکس یعنی احساس کمتری نہیں ہوتی۔ اگر آپ ایک کامیاب مرد کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ اس کے پاس کردار ہے اور اس کے اپنے مقاصد اور عزائم ہیں۔اگر آپ ایک مالدار شخص کا انتخاب کرتی ہیں تو یاد رکھیے گا تو آپ کی زندگی اس کے مرون منت ہوگی۔ مکمل کچھ بھی نہیں ملا کرتا!!
خواتین کو یہ بھی دھیان رہے کہ شوہر کا دل جیتنے کے لئے ایک ہی ڈش بار بار اس کے سامنے رکھی جائے،ورنہ یہ حال ہوجائے گا۔۔ایک خاتون سائیکالوجسٹ کے پاس گئی اور کہا ڈاکٹر صاحب میں نے ہفتے کو ساگ پکایا اور تڑکا لگاکر اپنے شوہر دیا،شوہر نے کہا واہ واہ مزا آگیا،کیا زبردست ساگ ہے،پھر میں نے اس ساگ کو اتوار کو تڑکا لگایا اور اپنے شوہر کو دیا تو شوہر نے پھر کہا واہ، مزا آ گیا، کیا زبردست ساگ ہے،پھر ایسے ہی سوموار کو ہوا شوہر نے تعریف کی مگر جب میں نے منگل کو وہی ساگ ،بالکل ویسے ہی تڑکا لگا کر دیا تو میرے شوہر نے ساگ دیکھتے ہی اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔۔ڈاکٹر صاحب یہ اچانک میرے شوہر کو آخر ہو کیا جاتا ہے؟لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکا ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔ انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا، موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از اِل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گوسکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی”۔جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا، خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہیں، پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں”سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویز کرایا ہے۔”
اور اب چلتے چلتے آج کی آخری بات بھی خواتین کیلئے مشورہ ہی ہے۔۔۔۔سچے رشتے کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر قربان مت کرو، نہ کوئی مکمل ہے اور نہ ہمیشہ صحیح اور یاد رکھو، تعلق ہمیشہ تکمیل سے بڑا ہوتا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔