... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
کرکٹ ہو یا سیاست دونوں کے ساتھ بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلینا شدید مایوسی کا سبب بنتا ہے ۔ ہندوستان کی ٹیم جب فائنل کھیلنے کے لیے نریندر مودی اسٹیڈیم میں اتری تو سبھی کو یقین تھا کہ ”جیتے گا تو روہت ہی”۔میں نے بس اور ریل گاڑی میں دیکھا ہر بچہ ، بوڑھا اور جوان اپنے موبائل پر کرکٹ دیکھ رہا تھا لیکن اپنے پچاس اوورس میں ہندوستان کی ٹیم جب 240 رنز پر آل آوٹ ہوگئی تو آسٹریلیائی اننگز سے پہلے ہی لوگوں نے موبائل پر کرکٹ کے علاوہ سب کچھ دیکھنا شروع کردیا تھا حالانکہ کرکٹ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ہندوستان کی ٹیم میں شامی اور سراج جیسے قابل گیند باز اپنے اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ یوگی یا کے سی آر سے کم نہیں ہیں۔ اس بار وزیر اعظم بذاتِ خود ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دہلی سے احمد آباد آچکے تھے ۔ آسام جیسے دور دیس سے ہیمنتا کمار بسوا بھی گجرات پہنچ گئے تاکہ میچ جیتنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف دوچار زہریلے تیر چھوڑ سکیں۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کو بھی امروہہ کے سپوت محمد شامی کی حوصلہ افزائی کے لیے نہیں آنا چاہیے تھا مگر وہ حلال پر پابندی لگانے میں مصروف ہوگئے ۔ ان کے اس فیصلے ناراض ہونے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ حرامخوری کرنے والا اگر حلال پر اعتراض نہ کرے تو کیا کرے ؟
انتخاب کے معاملے میں مودی جی کی یکسوئی بے مثال ہے ۔ ان کے زیادہ تر ٹویٹ یعنی ایکس پیغامات الیکشن کی مہم سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس کے سوا کسی بڑے سے بڑے سانحہ کو وہ قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے مثلاً اتراکھنڈ کی ایک سرنگ میں اکتالیس مزدورآٹھ دن سے سے پھنسے ہوئے ہیں ۔ ہر دن پندر ہ سولہ پیغام لکھنے والے وزیر اعظم کو پورے ہفتے مذکورہ محنت کشوں کی جانب توجہ دینے یا ان کے اہل خانہ سے ہمدردی جتانے کاخیال تک نہیں آیا ۔ کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے احمد آباد پہنچ جانے والے وزیر اعظم کو اتراکھنڈ جانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ بعید نہیں کہ ان مزدوروں کے اہل خانہ کی بددعا سے ہندوستان میچ ہار گیا ہو۔ وزیر اعظم کے لیے کرکٹ کے عالمی کپ کا سیمی فائنل اتنا اہم ہوگیا کہ انہوں نے ایک چھوڑ دو دو ایکس کردئیے ۔ پہلا تبصرہ تو خیر ٹیم انڈیا کے لیے تھا ۔ اتفاق سے وزیر اعظم نے یہ پیغام انگریزی میں لکھا حالانکہ قومی زبان ہندی یا مادری زبان گجراتی میں بھی لکھ سکتے تھے ۔اپنے کھلاڑیوں کو ‘ٹیم انڈیا’ کہہ کر پکارتے وقت مودی جی اور ان کے بھگت بھول گئے کہ یہ نام تو غلامی کی نشانی تھا۔ اب اچانک یہ قوم پرستی( دیش بھگتی) کی علامت کیسے بن گیا؟ اندھے بھگتوں کا شعار آنکھ موند کر اپنے دیوتا کی تقلید کرنا ہے اس لیے وہ سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے ۔
فائنل میں ہار کے بعد وزیر اعظم سمیت ہندوستانی شائقین نے اسے ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دیا اور آئی سی سی کرکٹ عالمی کپ 2023 کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار جیت پر گفتگو کرنے لگے ۔ اس میچ میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کو مبارکباد دینے کے بعد نریندر مودی نے فائنل میچ کے لیے نیک خواہشات بھی پیش کی تھی وہیں سے گڑ بڑ شروع ہوگئی ۔ وزیر اعظم نے ایکس پر لکھا تھا : ٹیم انڈیا کو بہت بہت مبارکباد!انڈیا نے غیر معمولی کارکردگی کامظاہرہ کیا اور فائنل میں شاندار اندازمیں داخل ہوا۔ شاندار بلے بازی اورگیندبازی نے ہماری ٹیم کو میچ میں فتح دلائی۔ فائنل کے لیے نیک خواہشات”!۔ امیت شاہ کے فرزندِ ارجمند اجئے شاہ نے نہ جانے وزیر اعظم کو کس طرح فائنل میں کامیابی کا یقین دلایا جو وہ بہ نفسِ نفیس احمدآباد پہنچ گئے ۔ ہندوستان کی ٹیم اس پورے ٹورنامنٹ کے اندر ایسے زبردست فارم میں تھی کہ کبھی بھی دباؤ میں نہیں آئی لیکن مودی جی اپنے نام سے منسوب اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لیے کیا پہنچے کہ دباؤ آگیا ۔کھلاڑیوں نے سوچنا شروع کردیا کہ اگر کہیں ہار ہوگئی تو وہاں موجود شاہ جی ای ڈی کا چھاپہ ڈلوا دیں گے ۔ کاش کے مودی جی اپنے گھر میں بیٹھ کر میچ دیکھتے تو ٹیم بغیر کسی دباو ٔکے اپنا گیارہواں میچ بھی جیت جاتی۔
وزیر اعظم کو پانچ ریاستوں میں ہار کا خوف ستا رہا ہے اس لیے وہاں پر جیت کے لیے جو پٹاخے جمع کرکے رکھے گئے تھے انہیں کرکٹ میچ کے بعد استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہندوستانی ٹیم کی جیت کا کریڈٹ لینے کے لیے وہ احمد آباد پہنچ گئے تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ گویا ساری وکٹیں انہوں نے ہی لی ہیں اور سارے رن انہیں کے بلے سے نکلے ہیں ۔ چندرایان کے چاند پر پہنچتے وقت وہ اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اس وقت اسرو پس منظر میں چلا گیا تھا اور پیش منظر میں صرف وزیر اعظم کا ہنستا ہوا نورانی چہرا نظر آتا تھا ۔ اپنی دھواں دھار تقریر کے بعد جب مودی جی جنوبی افریقہ سے واپس آئے تو بہت سارے بھگتوں کوگمان ہوا کہ وہ چاند پر بھگوا جھنڈا گاڑ کر لوٹے ہیں۔ سیمی فائنل میں مودی جی نے دل کھول کرمحمد شامی کی تعریف کی تو لوگوں کو حیرت ہوئی مگر جب یاد آیا کہ وہ آئی پی ایل ٹورنامنٹ میں گجرات ٹائٹنس کی طرف سے کھیلتے ہیں۔ پچھلے سال گجرات ٹائٹنس کو فائنل جتانے اور اس سال فائنل میں لانے کے اندر شامی نے اہم کردار ادا کیا ہے تو سارا عقدہ کھل گیا اور شامی کے تئیں مودی جی کی شفقت سب کی سمجھ میں آگئی ۔
مودی جی کی تعریف کا سبب جو بھی ہو مگر محمد شامی کی تعریف کرکے مودی جی نے اپنے بھگتوں کے غموں پر نمک چھڑکنے کا کام کردیا ۔ محمد شامی کی کامیابی میں ایک اور گجراتی ہاردک پنڈیا کا بڑا حصہ ہے ۔ وہ اگر زخمی نہ ہوتے تو محمد شامی کو کھیلنے کا موقع ہی نہ ملتا ۔ وہ بیچارے کھلاڑیوں کو وقفہ میں پانی پلاتے رہ جاتے ۔ ٹورنامنٹ میں محمد شامی پر ترجیح پانے والے ہاردک پنڈیا اس ٹورنامنٹ کے پہلے چار میچوں میں جملہ پانچ وکٹ لے سکے تھے ۔ ان جگہ کھیلنے کو آنے والے محمد شامی نے پہلی ہی میچ میں پانچ وکٹ لے لیے ۔ اس کے بعد کھیلے جانے والے 6 میچوں میں وہ تین بار ایک میچ کے اندر پانچ یا اس سے زیادہ وکٹ لے کر جملہ 23 کھلاڑیوں کو آ ؤٹ کر دیا اور فائنل کا ایک وکٹ ملایا جائے تو وہ تعداد 24 ہوجاتی ۔ سچ تو یہ ہے کہ محمد شامی نے ہاردِک پنڈیا کے نہیں کھیل سکنے کا غم پوری طرح غلط کردیا ۔ ہاردک اور شامی کی قسمت پرقصری کانپوری کا یہ شعر صادق آتا ہے
کوئی منزل کے قریب آ کے بھٹک جاتا ہے
کوئی منزل پہ پہنچتا ہے بھٹک جانے سے
مودی بھگت توقع کررہے تھے کہ مودی جی سیمی فائنل کے بعد کم ازکم دوبول اسی میچ میں شاندار سنچری لگا کر سچن تندولکر کا ریکارڈ توڑنے والے وراٹ کوہلی کے بارے میں بھی کہہ دیں گے لیکن ایسا نہیں ہواکیونکہ سیمی فائنل میں وراٹ کوہلی کے علاوہ دو اور لوگوں نے بھی سنچری
بنائی تھی جبکہ عالمی کپ میں سات وکٹ لینے کا اعزاز تو صرف محمد شامی کے حصے میں آیا اس لیے انہیں مین آف دی میچ کے خطاب سے بھی نوازہ گیا تھا۔ مودی جی ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بناکر عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے وراٹ کوہلی کو نظر اندا ز کر بھگتوں کو ایسا ناراض کیا ہے کہ 17نومبر کو مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے ایک بھی ہندوتوا نواز کرکٹ بھگت نے کمل پر مہر نہیں لگایا ہوگا ۔ مودی جی نے اپنے مبارکبادی کے پیغام سے بھگتوں کو جو ناراض کیا ہے اور اس کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔
ان بھگتوں کوغمگین کرنے کے لیے ٨ نومبر کو محمد سراج بالروں کی عالمی فہرست میں پہلے نمبر پر پہنچ گیا اور پورے ہفتے اس پر قائم رہا ۔اب وہ کیشو مہاراج کے اس مقام پر آنے کا جشن منارہے ہیں مگر انہیں یاد نہیں کہ کیشو ہندوستان کے لیے نہیں جنوبی افریقہ کی ٹیم میں کھیلتا ہے ۔ ہندوتوانوازوں کے لیے مذہبی عصبیت کے مقابلے حب الوطنی ثانوی شئے ہے ۔ مسلم دشمنی میں یہ لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اس کا مظاہرہ اسرائیل کی اندھی تائیدکرکے کیا جارہا ہے ۔ اس معاملے میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ راجستھان کے اند ر بدزبانی کرچکے ہیں۔ ہندوتوا نوازوں کا شعار ظالم کی ہمنوائی ہے ۔ ہٹلر جب یہودیوں کو مار رہا تھا تو وہ اس کی حمایت کررہے تھے اور اب یہودی مسلمانوں پر ظلم ڈھارہے ہیں تو یہ اس کے ساتھ ہیں ۔ یہ حسن اِ اتفاق ہے کہ اسرائیل نے اس میچ کے لیے ہندوستانی ٹیم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا ۔ ہندوستان کی ٹیم اگر حسبِ توقع یہ میچ جیت جاتی تو یوگی ادیتیہ ناتھ اس کا کریڈٹ اپنی ٹیم کے بجائے اسرائیل کو دے کر کہتے دیکھا کس طرح چن چن کر چوکے اور چھکے لگائے ۔
مودی جی کے لیے اس میچ کے نتیجے میں یہ پیغام ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل کا نام ہٹا کر اپنے نام سے اسٹیڈیم بنا لینا جتنا آسان ہے اس پر فائنل جیتنا کہیں زیادہ مشکل ہے ۔ مودی بھگتوں کو یہ عبرت لینی چاہیے کہ ٹورنامنٹ میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کر کے سارے میچ جیتنے والی بے مثال ہندوستانی ٹیم اگر فائنل ہار سکتی ہے تو مودی جی کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی ٹیم کے بارے میں یہی کہنا پڑے گا کہ اس ٹورنامنٹ میں ‘مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا’اور140 شائقین کا دل جیت لیا۔ ویسے کھیل تو کھیل ہے اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔