وجود

... loading ...

وجود

کے ڈی اے نکما اور بے کار

پیر 20 نومبر 2023 کے ڈی اے نکما اور بے کار

میری بات/روہیل اکبر

ویسے تو ملک کا ہر ادارہ ہی خراب اور ملکی معیشت پر بوجھ ہے جہاں عام عادمی کو ریلیف ملنے کی بجائے پریشانیاں اور مصیبیتیں ہی ملتی ہیں کراچی چونکہ ملک کاسب سے بڑا شہر ہے اور جو کچھ بڑے شہروں میں ہوتا ہے اس سے بڑھ کر چھوٹے شہروں میں اس پر عمل ہوتا ہے کراچی کی تعمیر وترقی میںجتنا کام کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ہے تو اس سے بڑھ کر اس شہر کو خراب کرنے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے جہاں کرپشن اور لوٹ مار کی کہانیاں تو ہیں ہی ساتھ میں اس اداے کو نکمے اور بے کار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔ اسی طرح کے ادارے ملک کے مختلف شہروں میں کام کررہے ہیں۔ لاہور میںایل ڈی اے ہے اسلام آباد میں سی ڈی اے ہے ۔فیصل آباد میں ایف ڈی اے ہے۔ ملتان میں ایم ڈی اے ہے اور اسی طرح کے ادارے ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں بھی ہیں لیکن ان سب کی کارکردگی دیکھنی ہو تو نکمے اور بے کار ادارے کے ڈی اے سے ملا کر دیکھ لیں کسی قسم کا کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا ۔میں نے کے ڈی اے کا ذکر خاص اس لیے کیا ہے کہ اسے سندھ ہائیکورٹ نے نکما اور بے کار ادارہ قرار دیا ہے۔ ہمارے ملک میں عدالتیں چونکہ آزاد ہیں اور عام آدمی کے مسائل کو بخوبی سمجھتی ہیں اس لیے وہ جو محسوس کرتی ہیں وہ بلا جھجک کہہ دیتی ہیں۔کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی تفصیل پڑھنے سے پہلے عدالت عالیہ نے کے ڈی اے کے بارے میں جو کہا اسکی کا پس منظر بھی پڑھ لیں جو سندھ ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہے جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں وکیل نے مؤقف دیا کہ درخواست گزار فیض محمد لاشاری نے گلستان جوہر بلاک 40 میں 1991ء میں پلاٹ نمبر اے 2 اور اے 3 خریدا تھا مگر اس پلاٹ پر قبضہ کرلیا گیا۔ احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے پر عدالت کے ڈی اے حکام پر برہم ہوگئی اور ریمارکس دیے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے۔ ایک تو اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا۔ دوسرا عدالت حکم دے تو اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کریں۔ اگر ہم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروانا شروع کردیا تو درخواست گزار کے گھر جاکر پلاٹ دے کر آئیں گے۔ اس موقع پر جسٹس ندیم اختر نے ڈائریکٹر لینڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کے ڈی اے قانون کے مطابق اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہا۔جسٹس عبدالرحمن نے ڈائریکٹر لینڈ سے استفسار کیا کہ سوک سینٹر میں آپ کا دفتر کس فلور پر ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے کہا کہ کے ڈی اے کا دفتر تیسری منزل پر ہے عدالت نے استفسار کیا کہ اینٹی انکروچمنٹ والوں کا دفتر کس فلور ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے بتایا کہ ان کا دفتر بھی تیسری منزل پر ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی عمارت کے ایک ہی فلو پر اینٹی انکروچمنٹ والوں کا بھی دفتر ہے تو قبضہ ختم کیوں نہیں کرارہے؟
یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اینٹی انکروچمنٹ والے جواب نہیں دیتے ہم آخری مہلت دے رہے ہیں درخواست گزار کو متبادل پلاٹ فراہم کریں یا قبضہ ختم کرائیں ۔یہ تو تھی کے ڈی اے کی حالت جو نہ صرف قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں بلکہ انہیں موقع اور ماحول بھی فراہم کرتے ہیں کہ عام شہریوں کی جائیدادوں پر بلاجھجک قبضے کرو اور کچھ اسی طرح کی صورتحال ملک بھی میںقائم ایسے اداروں کی ہے جہاں سوائے لوٹ مار اور کرپشن کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ ہر شہر میں زرعی زمینوں پر ھڑا دھڑ ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب اگر ہم کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA)کے قیام اور مقصد پر بات کریں تو 1957ء میں کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ اور کراچی مشترکہ واٹر بورڈ کو 1957 کے صدر آرڈر نمبر 5 کے تحت ملا کر کیا گیا تھاجو نوٹیفکیشن گزٹ آف پاکستان میں 13.12.1957 میں شائع ہوا تھا۔ کے ڈی اے کراچی کے واٹر سپلائی سسٹم اور بلڈنگ کنٹرول مینجمنٹ کا ذمہ دار تھا لیکن کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قیام کے بعد کے ڈی اے اب درج ذیل کاموں کے لیے ذمہ دار ہے۔ پلاننگ، کوآرڈینیشن اور رینڈرنگ پلاننگ ایڈوائس،لینڈ ڈویلپمنٹ،ہاؤسنگ سکیم (عوامی ہاؤسنگ سکیم، کم لاگت ہاؤسنگ سکیم)، سڑکیں اور پل، ری ڈیولپمنٹ، پائپوں کی مینوفیکچرنگ، ڈیزائن بیورو، اینٹی انکروچمنٹ اینڈ ری سیٹلمنٹ، تحقیق و اشاعت،ہارٹیکلچر، پارکس اور تفریح، لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن، اکاؤنٹنگ سسٹم، آرکائیونگ آف لینڈ ریکارڈ، لینڈ ایکوزیشن اور چارجڈ پارکنگ یہ جتنے بھی شعبے ہیں اس وقت کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا گڑھ بن چکے ہیں۔ کراچی کے بازاروں میں سے گزرنا محال ہے ۔کیونکہ کے ڈی اے کے عملہ نے وہاں کی مقامی تاجر یونین کی ملی بھگت سے ہر فٹ پاتھ پر قبضہ کروا رکھا ہے۔ ہر دُکان کے باہر غیر قانونی اڈے لگے ہوئے ہیں اور بس اڈوں کا تو حال ہی نہ پوچھیں کہ وہاں کیا حشر کیا ہوا ہے؟ غیر قانونی ہائوسنگ اسکیموں ،پلازوں اور مارکیٹوں کی بھر مار ہے۔ کے ڈی اے کے قیام کے وقت اس اتھارٹی کا بنیادی کام کراچی شہر کو ترقی دینا تھا۔ وقت شہر کی آبادی تقریباً 16 لاکھ تھی جو کہ اب بڑھ کر سوا کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جہاں لوگوں کو رہائش کے سنگین مسائل ہیں اوراتھارٹی کے پاس سوائے کرپشن اور لوٹ مار کے اور کوئی کام نہیں۔ یہ صرف کے ڈی اے میں ہی ایسا نہیں ہوتا بلکہ کے ڈی اے کی طرح ایل ڈی اے اور سی ڈی اے بھی ایسے ہی ادارے ہیں۔ جہاں جائز کام بھی ناجائز طریقے سے کروانے پڑتے ہیں ۔اگر اپنا سیدھا سادہ کام سیدھے سادھے طریقے سے کروانے کے لیے کوئی سیدھا سادھا انسان ان اداروں میںبیٹھے ہوئے کرپٹ مافیا کے پاس چلا گیا تو پھر اسکا حشر بھی فاروق آزاد جیسا ہی ہوتا ہے ۔ فاروق آزاد لاہور کا ایک بااثر سیاسی کشمیری شہری ہے جو ہر وقت دوسروں کے کام کروا کر خوشی محسوس کرتا ہے لیکن جب اسے اپنے مکان کے لیے ایل ڈی اے جانا پڑا تو پٹواری سے لیکر ڈائریکٹر تک نے اسکی ناک سے لکیریں نکلوادیں کیونکہ کہ ہمارے تمام اداروں میں ایک مافیا بیٹھا ہوا ہے جو پیسے دیکر تعیناتیاں کرواتے ہیں اور پھر ان پیسوں کو ڈبل کرنے کے چکر میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ۔یہ صرف ایک ادارے کا ہی حال نہیں بلکہ ہمارے ملک کے ہر ادارے کی یہی صورتحال ہے جہاں لوٹ مار تو ہے ہی ساتھ میں لوگوں کو تنگ کرنا بھی انکا شوق ہے نہ جانے انکا احساس ختم ہو گیا یا پھر ان کے اندر کا انسان مر گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر