... loading ...
۔
راؤ محمد شاہد اقبال
جس طرح اس وقت پورا پاکستان سیاسی بھونچال کی زد میں آیا ہوا ہے وہیں سندھ میںبھی بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلیوں کی خبریں گردش کر رہی ہیں ۔سندھ کے بڑے بڑے سیاسی خاندان اس وقت اپنے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے ایک عجیب سی ذہنی کشمکش کا شکار ہیں ۔اُن کے سامنے اگرایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت مختلف ترغیبات سے اُن کی آنکھیں خیرہ کرنے کے لیے موجودہے تو دوسری جانب عین اُن کے پیچھے پاکستان مسلم لیگ ن، ایم کیوایم پاکستان اور سندھ قوم پرست جماعتوں کا سیاسی اتحاد جی ڈے اے کا متوقع سیاسی مستقبل بھی اُنہیں آوازیں دے،دے کر اپنی طرف بلا رہا ہے اور وہ درمیان میں کھڑے تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ اپنا آئندہ کا سیاسی مستقبل کس سیاسی جماعت سے وابستہ کریں ۔گوکہ تاریخی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ابھی تک سندھ کے زیادہ تر سیاسی خاندانوں نے ہمیشہ اپناسیاسی وزن پاکستان پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ہی ڈالاہے اور اُن کا یہ فیصلہ اُن کے لیے ہر بار سیاسی فائدے کا باعث بھی بنا ہے۔مگر شایداب پہلی بار وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں ۔سندھ کے طاقت ور سیاسی خاندانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی اس نئی سیاسی سوچ کی چند بنیادی نوعیت کی وجوہات ہیں جس میں اولین وجہ تو سیاسی حلقوں میں پیدا ہونے والا یہ بھرپور تاثر ہے کہ شاید اسٹیبلیشمنٹ آئندہ حکومت صرف وفاق میں ہی نہیں بلکہ سندھ میں بھی مسلم لیگ ن اور اِس کی نئی سیاسی اتحادی جماعتوں ایم کیوایم اور جی ڈے کو دینا چاہتی ہے ۔دوسری وجہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہونے والی المناک سیاسی موت ہے اور تیسری وجہ 15 سال سے سندھ میں مسلسل حکومت کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی کی سندھ کی عوام کی نظروں میں تیزی سے مقبولیت میں ہوتی ہوئی کمی ہے۔
سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی سندھ کے سیاسی خاندانوں میں پیداہونے والی اس نئی سیاسی سوچ سے بخوبی آگاہ ہے ۔اس لیے وہ بھی اپنے طور پر بھرپور کوشیش کر رہی ہے کہ اُن کی سیاسی ٹوکری میں جو جوسیاسی انڈے رکھے ہوئے ہیں کوئی اُنہیں چرا نہ لے جائے اس کے لیے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سندھ بھر میں کڑا سیاسی پہرہ لگا دیا ہے بظاہر پیپلزپارٹی کے حلقے یہ ہی باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سندھ میں فی الحال تبدیلی کی ہوا چلنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہی ہوگی اورسندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے جو بھی مخالف ہیں وہ 2018 کے انتخابات کی طرح عبرت ناک شکست سے دوچار ہوں گے۔اگر پیپلزپارٹی کے اس دعوی کوایک لمحہ کے لیے درست مان بھی لیا جائے تو پھرہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کراچی کے علاوہ سندھ بھر میں پیپلزپارٹی کو آئندہ انتخابات میں کلین سوئپ سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تو پھر کیا ہم یہ بھی مان لیں کہ آئندہ انتخابات میں ہمیں سندھ بھر میں پیپلزپارٹی کے علاوہ کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت نظر نہیں آئے گی؟میرے خیال میں پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے سیاسی حلقوں میں پھیلایا جانے والا یہ تاثر قطعی طور پر غلط ہے۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اپنے پھیلائے جانے والے اس تاثر پر خود پیپلزپارٹی کو بھی پوری طرح یقین نہیں ہے۔پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کی یہ بے یقینی اُس کے تقریباً تمام رہنماوں کے چہرے سے صاف چھلکتی ہے اور کبھی کبھی تو لفظوں کی صورت میں ظاہر بھی ہو جاتی ہے جس کا ایک ثبوت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان بھی ہے کہ ”پیپلزپارٹی کو کسی بھی الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی ، اس کے باوجود بھی ماضی میں حکومتیں بنائیں اور اَب بھی سندھ کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی حکومت بنائیں گے”۔
پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے دیئے جانے والے اِس طرح کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماپنجاب کے میدانِ سیاست میں آنے والے زلزلوں کے جھٹکوں کی چاپ سندھ میں بھی بخوبی محسوس کر رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے مضبوط ترین رہنما بھی سندھ میں شدید سیاسی عدم تحفظ کا شکارنظر آتے ہیں ۔اُنہیں یہ ڈر اور خوف ہے کہ آج سندھ کے جو بڑے بڑے سیاسی خاندان اُن کے ساتھ کھڑے ہیں اور اُن کی محبت کا دم بھر رہے ہیں کل کہیں ایسا نہ ہوکہ ”کنگ میکر ز” کی ایک آواز پر جی ڈی اے کے جھنڈے تلے کھڑے نظر آئیں ۔پنجاب کی طرح سندھ میں بھی مسلم لیگ ن اور اس کے نئے سیاسی اتحادیوں کو ہی پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنے لیے سب سے بڑا سیاسی خطرہ سمجھا جار ہا ہے ۔اس سیاسی خطرہ کو مزید تقویت اس لیے بھی مل رہی کہ سندھ بھر میں سندھی ادیبوں ،دانشوروں ،صحافیوں اور نچلے درجے کے سیاسی کارکنوں کی طرف سے سندھی عوام کو مختلف فورمز پر پیپلز پارٹی مخالف ون پوائنٹ ایجنڈے پر جمع کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں اور وہ ون پوائنٹ ایجنڈا یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں سندھ کو ہر قیمت پر پاکستان پیپلزپارٹی کی بدعنوان حکومت سے نجات دلائی جائے اور اُس کے لیئے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بدعنوان حکمرانی سے پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی یا خلا کو پُر کرنے کے لیئے ایک طاقتور نعم البدل کے طور پر جی ڈے اے کو پیش کیا جارہاہے۔سندھ میں اپنے لیے پیدا ہونے والی اس حوصلہ افزا سیاسی صورت حال سے مسلم لیگ ن ، ایم کیوایم اور جی ڈے اے کتنا فائدہ اُٹھاتی ہے اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں مذکورہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں سے ہی لگایا جاسکے گا،لیکن ایک بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی سے” تختِ سندھ” چھین لینا اتنا آسان نہیں ہے ،جتنا کہ مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں ۔ ہماری دانست میں سندھ میں پیپلزپارٹی کو اگلے انتخابات میں شکست سے دوچار کرنا توبہت دور کی بات ہے ،شاید کسی جماعت کے لیے آبرومندانہ انداز میں سیاسی مقابلہ کرنا بھی بہت مشکل دکھائی دیتاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭