... loading ...
ریاض احمدچودھری
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کی تحریک سے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ غزہ صورتحال پر پاکستان نے عالمی فورمز پر اپنے مؤقف کا بھرپور اعادہ کیا۔ غزہ ظلم پر دنیا کی عالمی رہنماؤں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام اور حقوق پر غاصبانہ قبضہ اور ظلم و ستم کی مذمت کیے بغیر امن کی جانب پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ صورت حال فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تشدد اور تصادم سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ “مجھے فلسطین اور اسرائیل میں بڑھتے ہوئے تشدد پر سخت تشویش ہے۔ مزید خونریزی او رانسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے زیادہ سے زیاد ہ تحمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔میں بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہوں کہ وہ فریقین کو لڑائی مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرے”۔
پاکستان نے غزہ میں اردن کے فیلڈ ہسپتال کے گردونواح میں اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا مسلسل ہسپتالوں اور طبی سہولیات پر حملے کرنا جنگی جرم اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات، غزہ میں ڈھائے جانیوالے مظالم کے خاتمے،شہریوں کی زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کیلئے فوری جنگ بندی کرائے۔ اسرائیلی فوج نے 41ویں روز بھی غزہ میں بربریت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مسجد پر حملہ کر کے 50 نمازیوں کو شہید کر دیا جبکہ متعدد افراد زخمی ہو گئے۔صیہونی فورسز کی جانب سے اردنی فیلڈہسپتال پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں 7 ارکان زخمی ہو گئے جبکہ اسرائیلی فوج ایک بار پھر غزہ کے الشفا ہسپتال میں داخل ہو گئی اور ہسپتال کے جنوبی داخلی راستے کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا۔ بیسمنٹ سمیت مختلف حصوں میں تلاشی کے دوران نہ یرغمالی ملے، نہ کسی سرنگ کا نشان ہاتھ لگا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ میں فوری وقفے اور امدادی راہداریوں کو کھولنے کی قرارداد منظورکی لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔قرارداد کی حمایت میں کونسل کے 15 میں سے 12 ارکان نے ووٹ دیئے۔ برطانیہ، روس اور امریکہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔قرارداد میں تمام فریقین سے بین الاقوامی امدادی قانون، خاص طور پر عام شہریوں، خا ص طور پر بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بین الاقوا می قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کی غزہ میں بمباری کو 41روز ہو چکے ہیں اور ابتک12ہزار سے زائد فلسطینی شہید، 25 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے وسطی غزہ کے علاقے سبرا میں مسجد پر اس وقت بمبار ی کی جب مسجد میں نماز جاری تھی اور مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسرائیل کی جانب سے رات گئے طیاروں سے پمفلٹ گرائے گئے جس میں شہریوں کو کہا گیا کہ وہ خان یونس کے مشرقی کنارے پر واقع بانی شوہیلہ، خزہ، ابا سان اور قرارہ کے علاقوں کو خالی کردیں۔ ایندھن ختم ہونے سے غزہ کی پٹی میں ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم مکمل طور پر بند ہو گیا۔مواصلاتی نظام کی بندش سے ایمبولینسوں سے رابطہ کرنا ممکن نہیں رہا۔اقوام متحدہ نے بھی غزہ میں مکمل کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیل نے حماس کے سربراہ اور غزہ کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کے گھر کو فضائی حملے میں مکمل طور پر تباہ کردیا جبکہ جارحیت پسند اسرائیلی فوج نے اس سفاکانہ عمل کی ویڈیو بھی شیئر کردی۔ اسر ائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے میں گھروں پر چھاپے مار کر 69 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا جبکہ اسرائیل نے شہریوں کو غزہ کی پٹی پر واقع چار علاقوں کو فوری طور پر خالی کرنے کا حکم بھی دیدیا۔اسرائیل اپنی جنونیت کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ عالمی اصولوں کے مطابق کسی بھی جنگ میں ہسپتالوں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے مگر اسرائیل کاالشفاء ہسپتال پر ٹینکوں سے حملہ کرکے دنیا کو یہ مکروہ پیغام دینا ہی مقصود ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کسی عالمی اصول کو خاطر میں نہیں لائے گا۔امریکہ اس وقت ایک فاشسٹ ملک کا کردار ادا کر رہا ہے جو کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہا ہے اور غزہ کو تباہ کرنے کیلئے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیار اور دوسری امداد فراہم کررہا ہے۔ اگر امریکہ سمیت الحادی قوتیں اسی طرح اسرائیل کی پشت پناہی کرتی رہیں تو اس کرہ ارض پر انسانی وجود ناپید ہونا بعید از قیاس نہیں۔
واشنگٹن میں اسرائیلی بمباری کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں جمع آواز بلند کر رہے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کے باہر اسی مقصد کے لیے جمع ہونے مظاہرین کو پولیس نے روک دیا۔ مظاہرین غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس نے اس موقع پر موجود ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ممبر کانگریس ارکان اور پارٹی ہیڈ کوارٹر کے تحفظ کے لیے لوگوں کو عمارتوں کے اندر رہنے کے لیے کہا۔ان مظاہرین کو پولیس نے پر تشدد ہونے پر اور عمارت میں گھسنے پر زبردستی نکال باہر کیا۔ اس کے لیے پولیس نے کالی مرچوں کا بھی استعمال کیا۔ وائٹ ہاوس کے اعلیٰ حکام کے علاوہ کانگریس اور ڈیموکریٹک پارٹی میں جوبائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی پر ایک تقسیم پائی جاتی ہے۔ بہت سے ڈیموکریٹ اور ڈیموکریٹ ارکان کانگریس اسرائیل سے متعلق پالیسی کو اپنی پارٹی کی سوچ اور شناخت سے متصادم قرار دیتے ہیں۔
امریکہ میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے صدر جو بائیڈن اور ان کی کابینہ کے دو ارکان کے خلاف غزہ میں “اسرائیلی حکومت کی نسل کشی کو روکنے میں ناکامی اور اس میں ملوث ہونے” پر مقدمہ دائر کیا ہے۔بائیڈن، سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن، اور سیکریٹری دفاع لائڈ آسٹن کے خلاف وفاقی شکایت میں کہا گیا ہے کہ وہ “غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کو غیر مشروط فوجی اور سفارتی حمایت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھ کر، فوجی حکمت عملی پر قریبی رابطہ کاری، اور اسرائیل کی بے دریغ اور بے مثال بمباری مہم اور غزہ کا مکمل محاصرہ روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو کمزور کر کے سنگین جرائم کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے”۔واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے جوابی حملے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی حکومت کے لیے اپنی غیرمتزلزل حمایت کا اظہار کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔