... loading ...
ب نقاب/ایم آر ملک
77کی تحریک میں ایئر مارشل اصغر خان عوام میں ایک ہیرو بن کر اُبھرے، چہرے نہیں نظام کو بدلو، لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو،کا نعرہ شہروں سے نکل کر دیہی علاقوں کی گلیوں تک پہنچ چکا تھا۔ ایسے میں اقتدار کی ہوس کے پجاری مرد مومن مرد حق نے موقع کو غنیمت سمجھا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو کو پابند ِ سلاسل کر دیا گیا ۔عوامی رد ِ عمل کے خوف نے مرد ِ مومن مردحق کو90 روز میں انتخابات کرانے کے وعدے پر مجبور کر دیا اور یہ وعدہ مرد مومن مرد حق نے خانہ کعبہ میں کیا۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہو گئیں اور اُمیدواروں کو ٹکٹوں کے اجراء کیلئے اپنے مرکزی آفسز میں طلب کر لیا گیا۔ ایئر مارشل اصغر خان نے جس روز پارٹی ٹکٹ کے اُمیدواروں کو طلب کیا اُس روز ائیرمارشل اصغر خان کی رہائش گاہ فرسٹ کچہری روڈ ایبٹ آباد پر تاریخ کی آنکھ نے تاحد نظر ایسے افراد کی لینڈ کروزر، ٹیوٹا کرولا، مرسڈیز گاڑیوں کی لائنیں لگی دیکھیں جن میں ٹکٹ کے حصول کیلئے لغاری، مزاری، لاشاری، دریشک، سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وقت کے لینڈ لارڈز نے تمام رات آنکھوں میں گزار دی مگر ٹکٹ کیلئے اُنہیں کوئی آواز نہ پڑی۔ لاکھوں روپے پارٹی فنڈز کی آفر پارٹی کے غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے نظریاتی ورکرز کی محبت،جدوجہد،نظریات پر استحکام اور جانگسل جدوجہد کے مد مقابل ایئر مارشل اصغر خان کے دل کو موم نہ کر سکی۔ نظریاتی ورکروں کو ایئر مارشل اصغر نے یوں پزیرائی بخشی کی دولت کے ڈھیروں کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر ٹھکرا دیا۔ ایئر مارشل اصغر خان کی دبنگ آواز دولت سے ٹکٹ خریدنے والے ان نو دولتیوں کے ہجوم میں لیہ کے مہر فضل حسین سمرا،ملتان کے عثمان حیدر،ملک وزیر اعوان،لیہ کے شیخ نذر حسین،ذوالفقار خان نیازی کا نام پکار رہی تھی ۔
پاکستان کی سیاست میں ایئر مارشل اصغر خان کا نام سن کر آج بھی اُن آنکھوں میں جھڑی لگ جاتی ہے جنہوں نے برصغیر کے بٹوارے میں ایک آزاد وطن کی خاطر اپنے پیاروں کی لاشیں سرحد پار اپنی آنکھوں سے گرتے دیکھیں جن کے معصوم ،نیزوں کی انیوں میں پرو دیئے گئے ،سکھوں کی کرپانوں نے جن کے سامنے ماؤں کی چھاتیاں کاٹ ڈالیں،جن کی نو جوان بہنوں نے اپنی ناموس بچانے کی خاطر کنوئیں اپنی لاشوں سے بھر دیے۔ اُن سے زیادہ بھلا محب وطن کون ہو سکتا ہے جنہو ں نے ایئر مارشل اصغر خان جیسے محب ِ وطن،ایماندر،باکردار فرد کی قیادت کا خواب دیکھا،وطن ِ عزیز کی حقیقی قیادت کاتصور ذہن میں لاکر جو ایئر مارشل اصغر خان کے جلسوں کو وطن کی آن وطن کی شان۔ایئر مارشل اصغر خان کے فلک شگاف نعروں سے گرماتے رہے ۔اُنہیں ایئر مارشل اصغر خان کی شکل میں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آرہی تھی اُس آزادی کی تکمیل نظر آرہی تھی جس کا خراج اُنہوں نے سرحد پار کرتے وقت اپنی قیمتی متاع لٹا کر ادا کیا تھا ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایئر مارشل اصغر خان ایک ایسی شخصیت تھی جس کی پارسائی،حب الوطنی کی قسم آنکھیں بند کر کے اُٹھائی جاسکتی ہے مگر دشمنان جمہوریت قوم کے اس رہبر کی قیادت میں ایسے مزاحم ہوئے کہ وطن عزیز کے بدن پر لگے اُس چر کے کا زخم مندمل ہونے میں نہیں آرہا ۔جنرل ضیاء نے ایک محب وطن کے ضیاع کیلئے اپنے اقتدار کو گیارہ سال کی طوالت بخشی اور ایسی باقیات چھوڑی جس نے آج ہر فرد وطن کے سر پر اپنی لوٹ مار سے 3لاکھ روپے قرض کی بھاری پنڈرکھ دی ہے ،جس کے دور میں ہر روز اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروز گاروں کی لاشیں درختوں کی شاخوں سے جھولتی ہیں ۔مرحوم مہر فضل سمراء کہتے ہیں کہ ایئر مارشل اصغر خان کی ورکرز نوازی دیکھیں کہ این اے 152جہاں سے آج دیوان عاشق بخاری نااہل ہوئے ہیں اُن کے والد دیوان غلام عباس بخاری نے اسی حلقہ سے تحریک استقلال کے ٹکٹ کیلئے درخواست دی مگر ایئر مارشل اصغر خان نے یہ درخواست محض اس لئے مسترد کر دی کہ این اے کے اس حلقہ سے ایک نظریاتی ورکر عبدالرزاق ایڈووکیٹ کو تحریک استقلال کا ٹکٹ محض نظریاتی ورکر ہونے اہلیت پر پارٹی قیادت جاری کر چکی تھی۔ دیوان غلام عباس بخاری نے تب 5لاکھ پارٹی فنڈ کی آفر کی لیکن ایئر مارشل اصغر خان نے اُنہیں یہ تاریخی الفاظ کہے کہ ہم نے نظریاتی سیاست کر نی ہے۔ تحریک استقلال کا پلیٹ فارم نظریاتی سیاست کا پلیٹ فارم ہے، یہ کسی آڑھتی کی دکان نہیں کہ آپ کے پانچ لاکھ روپے کے بدلے ہم ایک نظریاتی ورکر سے ٹکٹ چھین لیں۔ ہاں اگر عبدالرزاق ایڈووکیٹ برضائے خوشی آپ کے حق میں فیصلہ کر دے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ دیوان غلام عباس بخاری نے ملتان کے عثمان حیدر کو ساتھ لیا اور عبدالرزاق ایڈووکیٹ کو منانے پہنچ گئے۔ عبدالرزاق ایڈووکیٹ چونکہ ایک نظریاتی ورکر تھے سو اُنہوں نے پارٹی مفاد کو سامنے رکھا اور قومی اسمبلی کی نشست کی حتمی جیت کیلئے دیوان غلام عباس بخاری کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ مگر مرد مومن مرد حق نے وطن عزیز کے مستقبل کو یوں تاریک کیا کہ تین ماہ میں الیکشن کرانے کے بجائے محض ایئر مارشل اصغر خان کو راہ سے ہٹانے کیلئے گیارہ سال گزار دیے۔ تب ہمارے ایک دوست نے اس پر ایک قطعہ لکھا تھا کہ!
گو شرط سے حاصل کوئی نیکی نہ بدی ہے
یاروں نے مگر شرط الیکشن کی بدی ہے
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں فقط تین مہینے
کچھ لوگوں کا کہنا ہے نہیں تین صدی ہے
ایک دوست کی باتوں نے دکھتی ہوئی پرانی یادوں کے زخم ہرے کر دیے جنہیں وقت نے مندمل کر دیا تھا۔ اس الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر یہ باور کرادیا کہ کس طرح ایک آمر نے اس قوم سے اُس کا مستقبل چھینا کہ اقبال کی دھرتی کیلئے آج نہ کوئی رستہ ہے اور نہ کوئی منزل۔ کاش وقت رک جاتا اور ائیر مارشل اصغر خان کی شکل میں اس قوم کو حقیقی رہنما مل جاتا مگر وقت بڑا بے وفا ہے ،یہ کبھی رکتا نہیں۔ دکھ،تکلیف اور درد کبھی ادراک اور علاج کے بغیر کم نہیں ہوتے۔
٭٭٭