... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،گزشتہ دنوں ایک دلچسپ کیس سندھ ہائی کورٹ میں لگا، سندھ ہائی کورٹ نے 10 گرام چرس رکھنے اور اس کے استعمال کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کر دی۔سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے درخواست گزار غلام اصغر سائیں پر اظہارِ برہمی کیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ یہ آپ کیسی درخواست لے کر آئے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ سب لوگ چرس پینا شروع کر دیں؟ بتائیں آپ پر کتنا جرمانہ لگایا جائے؟درخواست گزار غلام اصغر سائیں نے کہا کہ غریب آدمی ہوں، مفادِ عامہ کی درخواست لے کر آیا ہوں، دنیا کے بیشتر ممالک میں چرس پینے کی اجازت ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے درخواست گزار سے مکالمے میں کہا کہ چرس پینا ہے تو ان ممالک جائیں، یہاں اجازت نہیں ہے، ایسی درخواستیں عدالت میں کیوں لے کر آتے ہیں؟درخواست گزار نے مزید کہا کہ اس سے ملک کی آمدنی بڑھے گی، ریونیو بڑھے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نہیں چاہئے ایسا ریونیو، آمدنی بڑھانے کے جائز طریقے ہوتے ہیں۔جس کے بعد عدالتِ عالیہ نے 10 گرام چرس رکھنے اور اس کے استعمال کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کر دی۔
گاما چرسی رات کے کھانے کیلئے گھر والوں کے ساتھ دسترخوان پہ بیٹھا، ابھی سب نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ صحن میں بندھا بکرا رسی توڑ کر کمرے میں آ گیا۔گامے کے باپ نے دیکھا تو چلا کر کہا۔۔پکڑنا اس کو!۔ ۔ یہ سنتے ہی خلاف توقع گاما اچھل کر اٹھا۔۔اور اٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ لگنے سے لالٹین کا شیشہ ٹوٹ گیا۔جس کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا ہوگیا۔ اس اندھیرے میں گامے چرسی کا گھٹنا پہلے اس کے باپ کے منہ پہ لگا اور پھر اس کا پاؤں سالن کی دیگچی میں جا پڑا، پانی کا بھرا ہوا جگ اس کی ٹھوکر سے گلاسوں پہ گرا اور گلاس ٹوٹنے سے ہر طرف شیشے بکھر گئے۔گامے کا باپ گھبرا کر بولا۔۔ اوئے بکرے نوں گولی مارو اس نشئی نوں پھڑو۔۔اسی طرح ایک چرسی مزار پر گیا، اور دعا مانگنے لگا ۔۔باباجی ،سرکار میرا پرائز بانڈ نکل آئے،باباجی سرکار، میرا پرائزبانڈ ہر صورت نکلنا چاہیے جو بھی ہو۔۔دعا مانگ کر مزارسے باہرآیاتوکسی نے اس کی جیب سے پرائز بانڈ نکال لیا۔۔وہ چرسی غصے میں واپس اندر گیا اور کہنے لگا۔۔ باباجی سرکار،پہلے پوری گل تے سن لیا کرو، فیر ایکشن لیا کرو۔۔رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا،ایک نشئی افطاری کے وقت سگریٹ کے کش لگا رہاتھا۔۔اس کے بچے وضو کرکے نماز کے لئے مسجد جانے کی تیاری کر رہے تھے۔۔بچوں کا دادا اپنی چارپائی پہ لیٹا یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔۔دادا اپنے نشئی بیٹے کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا۔۔ او بے غیرتا!!! تینوں شرم نئیں آندی۔۔بچے نماز لئی مسیتے جارئے نے تے آپے مزے نال لیٹیا سگریٹ دے کش لا ریاں ائے۔۔نشئی نے مسکرا کے باپ کو دیکھا اور بولا۔۔ ویکہیا فیر!!! اپنی تربیت تے میری تربیت دا فرق۔۔۔ایک اور چرسی بس میں چرس پی رہا تھا۔۔پاس بیٹھے ایک بزرگ نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔! توبہ توبہ تم دوزخ کے راستے پر جا رہے ہو۔۔چرسی زورسے چلایا اور کہنے لگا۔۔ او روکو،روکوگاڑی روکو، مجھے تین ہٹی جانا ہے، یہ باباجی کہہ رہا ہے یہ بس دوزخ جارہی ہے۔۔یہ چرسی جب گھر پہنچا تو گھر پر تالالگا ہواتھا، تالا کھولنے لگا، نشے کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے چابی کبھی اِدھر ہل جاتی کبھی اُدھر،پاس کھڑے محلے دار نے جو سارا تماشا دیکھ رہا تھا،پوچھا ۔۔ میں کھول دوں؟؟؟؟؟چرسی ضدی انداز میں بولا۔۔ نہیں تالا تو میں خود کھولوں گا تم بس مکان کو پکڑ کے رکھو بہت ہل رہا ہے۔۔
ایک بادشاہ بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ آگ کے ایک الاؤ کے گرد چار افراد بیٹھے چرس پی رہے ہیں۔ بادشاہ بھی ان کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا اور پوچھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ تب ان میں سے ایک شخص نے سگریٹ بادشاہ کی طرف بڑھایا اور بولا ہم چور ہیں،اور ہم میں سے ہر شخص کے پاس ایک ہنر ہے جس کی مدد سے ہم چوری کرتے ہیں، میں مشکل سے مشکل تالا پلک جھپکتے میں کھول سکتا ہوں ۔ دوسرا بولا میں بلند سے بلند عمارت پر چڑھ جاتا ہوں۔ تیسرا بولا، میں اندھیرے میں بھی صاف صاف دیکھ سکتا ہوں۔ چوتھا کہنے لگا کہ میں وزنی سے وزنی گٹھڑی با آسانی اٹھا سکتا ہوں۔ اب انہوں نے بادشاہ سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہنر ہے۔ بادشاہ چرس کا کش لگا کر بولا کہ۔۔جب بھی تم پکڑے جاؤگے تو میں تب ایسا ہنر دکھاؤں گا کہ تم رہا ہوجاؤ گے۔۔یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور بادشاہ کو چرس کا تحفہ دے کر رخصت کیا۔۔ایک بار وہ چور پکڑے گئے اور دربار میں پیش کئے گئے۔ وہ بادشاہ کو اور بادشاہ انہیں پہچان گیا اور بولا کیا کہو گے وہ تھر تھر کانپتے ہوئے بولے ۔۔حضور ہم آپ کے ہنر کے منتظر ہیں۔ بادشاہ یہ سُن کر ہنس پڑا اور بولا کہ۔۔ میں تمہارے گَردے (خالص چرس) کا احسان مند ہوں۔۔اورپھر ناک میں انگلی گھماتے ہوئے ایک آرڈینینس جاری کیا کہ فی کَس پچاس کروڑا سیکم کی چوری پہ انہیں کوئی نہ پکڑے اور ان کی جیبوں میں موجود چرس شاہی خزانے میں جمع کر کے انہیں جانے دیا جائے۔
ایک چرسی قبرستان میں بیٹھاچرس پی رہاتھا،پولیس آئی تو چرس ایک قبر میں چھپانے لگا ۔۔پولیس نے پوچھا ادھر کیا کررہے ہو، چرسی نے کہا۔۔ والد صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا تھا۔۔پولیس والے نے قبر کو دیکھا پھر چرسی کو دیکھا اور غصے سے دھاڑا،مگر یہ قبر تو بچے کی ہے۔۔ چرسی بڑے معصومانہ انداز میں بولا۔۔ میرے والد صاحب بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔۔ایک چرسی نے دوستوں کی دعوت کا پروگرام بنایا اور اپنے ہی گھر سے رات کو بکرا چوری کیااور خوب دعوت کی۔اگلی صبح گھر پہنچاتو بکراگھر پر بندھا تھا بیوی سے پوچھنے لگا بکرا کہاں سے آیا؟بیوی غصے سے بولی۔۔بکرے کو چھوڑو،رات سے ہمارا کتا غائب ہے۔
تقریب میں شریک ہونے والے ایک سالارِ جنگ نے جب اپنا منہ ملک کے منتظمِ اعلیٰ کے کان کے قریب لا کر کچھ کہنا چاہا تو وہ چیں بہ جبیں ہو کر بولے۔۔ارے تم نے تو ناک میں دم کر دیا ہے، کتنی بار کہا ہے کم پیا کرو۔۔ایک چرسی جو شکل و صورت سے اینٹکلچوئل لگ رہا تھا، نشے کے ساتویں سُر میں دوسرے چرسی کو عورتوں کے حقوق پر لیکچر دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔عورت مرد کی برابری بھی کرنا چاہتی ہے لیکن ذرا سی مونچھیں نکل آئیں تو بھاگ کر پالر پہنچ جاتی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔