... loading ...
ریاض احمدچودھری
بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزمان طارق گزشتہ چار برس سے پاکستان واپس پلٹ کر لاہور میں مقیم ہیں۔ آپ نے اقبال کے شعر و پیغام کے فروغ کیلئے زندگی بھر قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں لیکن ایک طویل عرصے تک آپ منظر عام سے اپنی فوجی ملازمت اور بیرون ملک قیام کے باعث غائب رہے ہیں۔ زندگی بھر آپ نے کتب لکھیں، شاعری کی اور جہاں بھی رہے اقبال کے پیغام کو عام کرتے رہے۔ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ منشی فاضل سے لے کر فارسی ادب میں ڈاکٹریٹ کی اسناد کے حامل تو اپنے اوائل شباب میں ہی تھے آپ نے قرآن ، عرب شاعری اور فارسی شعر و ادب میں اپنا مطالعہ جاری رکھا اور اقبال کو فارسی شعرو ادب کی طویل روایت کے پس منظر میں پڑھا اور پڑھایا۔ آپ ہر بدھ کو دو گھنٹے کے دورانیہ کا اقبال کی فارسی شاعری کی وضاحت کیلئے خطبہ دیتے ہیں۔ گزشتہ برس آپ مرکز مجلس اقبال کے قلیدی مقرر بھی تھے۔ اس برس تو مرکزی مجلس اقبال کا روایتی یوم اقبال نہ منایا جا سکا اور اس کام کو ایوان اقبال نے سر انجام دیا جس میں پروفیسر زاہد منیر عامر کلیدی مقرر تھے اور جناب سینیٹر ولید اقبال کی تقریر بھی بہت اہم تھی ۔ بریگیڈیئر وحید الزمان طارق اس برس بھی متحرک رہے ۔ آپ نے کوئٹہ میں پاک فوج کے سٹاف اینڈ کمانڈ کالج میں نہ صرف ایک گھنٹہ دورانیہ کا اقبال اور لیڈر شپ کے عنوان سے خطبہ دیا بلکہ مزید ایک گھنٹہ تک سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ آپ نے سیالکوٹ ویمن یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور(چند ماہ قبل) ، ایوان صنعت و تجارت، ظفر علی خاں فاؤنڈیشن، دبستان اقبال، چغتائی پبلک لائبریری کوئٹہ، چغتائی لیب لاہور اور پلاک میں کلیدی یا صدارتی خطبات دیئے۔
آپ نے کشف درویش کے پیام اقبال کی تقریب کی صدارت کی اور اہم قومی شخصیات کو طلائی تمغات پہنائے۔ ایوان اقبال میں کلام اقبال کے طلباء کے مقابلہ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور خطبہ بھی دیا۔ کئی ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے خطاب کیا اور اس کے علاوہ مختلف وفود سے ملاقاتیں بھی کیں۔ آپ خانہ فرہنگ ایران لاہور میں اقبال ادبی انجمن کے قیام کی تقریب میں نہ صرف شریک تھے بلکہ فارسی زبان میں خطاب بھی کیا۔ آپ کا اہم موضوع اقبال اور مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر رہا۔ آپ نے فلسطین کے مسئلہ پر اقبال کی پریس ریلیز، برطانوی نیشنل لیگ کی رہنما فرکشارسن سے خط و کتابت، قائد اعظم کے نام لکھے گئے اکتوبر 1927ء کے خط اور اقبال کے اشعار کے حوالے دیئے جس میں انہوںنے فرمایا
یہیہ پِیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منوّر کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھْلتا نہیں یہ عْقد? دشوار
تْرکانِ ‘جفا پیشہ’ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
آپ نے مفتی امین الحسینی کی دعوت پر علامہ اقبال کے بیت المقدس میں دس روزہ قیام اور مؤتمر عالم اسلامی کے نائب صدر کی حیثیت سے فلسطین کیلئے عملی جدوجہد کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ فسلطین کی تاریخ ہندوستان میں بھی دہرائی جائے گی۔ اقبال نے فرد اس کی خودی کی تربیت، تعلیم، تہذیب ، قرآن فہمی اور اپنی روایات کی رجوع کا درس دیتے ہوئے کہا کہ ایک باکردار اور صحت مند انسان ہی ایک عظیم معاشرے اور قوم کی تشکیل کا عنصر ہوتا ہے۔ ہر شخص کو خود شناسی، خودداری ، خود انحصاری اور شعور ذات کا ادراک کر کے اپنے جوہر کی بتدریج نمو کرنا ہوگی۔ یہی خودی کا فلسفہ ہے اورآج کے عہد میں جب ہم لوگ خود انحصاری سے روگردانی کر چکے ہوں تو اقبال کے اس پیغام کو سمجھنا ہوگا۔
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
آپ نے اپنی تقاریر میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمات اقبال کی روشنی میں اجتہاد اور مکالمے کی ضرورت پر زور دیا جو کہ پارلیمان کا کام ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب پارلیمنٹ میں باکردار اور با صلاحیت لوگ منتخب ہو کر آئیں اور پارلیمان کی امانت کیلئے ماہرین قانون و شریعت اور ماہرین علم ا لاقتصا کی ایک ٹیم مقرر ہو ۔
وحید الزمان طارق کی کاوشوں پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
ماہر اقبالیات کا کہنا ہے کہ حضرت علامہ اقبال ایک راسخ العقیدہ اور سچے مسلمان تھے۔ وہ ایک صوفی منش انسان تھے، ان کی شاعری قرآنی آیات پر مبنی ہے۔ ان کے اشعار اس قدر قیمتی ہیں کہ ان کا مول نہیں چکایا جاسکتا۔ علامہ اقبال کی قدر غیر ممالک کے لوگوں کو ہے جو آج بھی ان کے کلام پر تحقیق کررہے ہیں جبکہ بے شمار لوگ علامہ اقبال کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں۔ شاعر مشرق کی شاعری کا ترجمہ دنیا کی دیگر متعدد زبانوں میں بھی ہوچکا ہے جو ہمارے لئے باعث فخر ہے۔علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کے بارے آج کی نوجوان نسل کو بتانے کی بھی اشدت ضرورت ہے۔ جس کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال 61 سال کی عمر میں پاکستان بننے کے 9 سال قبل ہی انتقال کرگئے۔ پاکستان کا خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس کی جھلک شعروں کی صورت میں ان کی شاعری میں ملتی ہے۔ انہوں نے اس وقت امت مسلمہ کے جن مسائل کی نشاندہی کی تھی وہ آج پوری ہورہی ہے۔علامہ اقبال ایک ولی اللہ بھی تھے جو قدرت کی حقیقتوں کے بے حد قریب تھے۔ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل بھی اپنے اشعار ہی میں بتادیا تھا جسے کھوج لگا کر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سرکاری سطح پر نطریات و افکار اقبال کو اجاگر کرنے کی مزید ضرورت ہے تاکہ نسل نو کا قبلہ درست کیا جاسکے۔