... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 16نومبر کو رکن ممالک میں برداشت اور رواداری کا عالمی دن منایا جاتا ہے ،پہلی مرتبہ یہ دن1996ء کو منایا گیا۔اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد مقامی اور بین الاقوامی سطح پرمعاشرے کے تمام افراد میں برداشت اور رواداری کے رویوں کو فروغ دینا اور عدم برداشت سے پیدا ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔بین الاقوامی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 90 فیصد مسائل، عدم برداشت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔آپ اپنے گھر سے لے کربین الاقوامی سطح تک کسی بھی معاملات کا جائزہ لے لیںجہاں کہیں پریشانی، ناچاقی ،جھگڑے ،کرائم اور عالمی سطح کے فسادو تضاد ہوگا۔ ان سب کی وجہ عدم برداشت کے رویے ہوں گے۔ معاشرے میں جیسے جیسے برداشت اور رواداری کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے۔ مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔سقراط کا ایک مشہور قول ہے کہ” عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے”۔ کہتے ہیں کہ سقراط کی درس گاہ کا ایک سخت اصول ” برداشت” تھا جس کے تحت درس گاہ میں شاگرد ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سنتے تھے اورکسی بھی اختلاف پر ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے حتیٰ کہ اگر کوئی شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا یا کسی دوسرے کو گالی یا دھمکی دیتا یا جسمانی طور پرلڑائی کی کوشش کرتا تواسے فوراً درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔سقراط کا کہنا تھا کہ برداشت معاشرے کی روح ہوتی ہے اور جب معاشرے میں برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ بھی کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ نہیں ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔
یونان میں عام طور پر خوبصورت بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن سقراط جسمانی لحاظ سے بھدا اورشکل و صورت سے دیگر یونانی بچوں کے مقابلے میں بدصورت تھا۔سقراط کے بچپن کے دوست کریٹونے اس کا حلیہ کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ”سقراط چھوٹے قد،موٹے اور کھردرے ہونٹ،بڑی بڑی اور حلقوں سے ابھری ہوئی آنکھوں ،ناک چپٹی اور چھوٹی پیشانی،الجھی اور بے ترتیب داڑھی اور گردن میں دھنسی گردن کا مالک تھا،اس کا لباس بھی بے ترتیب،شکنوں سے بھرا ہوا اور جسم سے ڈھلکا ہوا ہوتا تھا”۔ ا سکول کے زمانے میں اس کے کلاس فیلوز اسے مینڈک کے نام سے پکار کر اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ان تمام جسمانی خامیوں ،دوستوںاور لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود سقراط نے کبھی کسی کا برا نہیں منایا بلکہ وہ یہی کہتا تھا کہ”یہ دیوتاؤں کی مرضی ہے کہ میں ایسا ہوں کیونکہ ہر مخلوق کو خلق کرنے والا خود بہتر سمجھتا ہے کہ مخلوق کو کیسا ہونا چاہئے”۔ اسی طرح سقراط کی دوسری بیوی”زینتھی پی” کی بدکلامی پورے ایتھنز میں مشہور تھی ،وہ نہ صرف سقراط بلکہ اس کے شاگردوں کے ساتھ بھی بدکلامی کرتی رہتی تھی لیکن سقراط اپنی بیوی کی بدکلامی کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیااور کبھی اس کا دل نہ دکھایا۔سقراط کا برداشت کا رویہ ،مثبت سوچ اور دوسروں کو اچھے اور نیک کاموں کی ترغیب دینے جیسی خاصیت نے اسے ایک عظیم فلسفی بنا دیاتھا۔
ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے برداشت کے حوالے سے بہت سے مواقع پرایسے عملی نمونہ پیش کئے جو ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔جب ایک بوڑھی عورت آپۖ پر روزانہ کوڑا پھینکتی تھی تو آپۖ نے کمال حد تک برداشت کا مظاہرہ کیا اور کبھی بوڑھی عورت کو برا بھلا نہیں کہا بلکہ جس دن بوڑھی عورت نے آپۖ پر کوڑا نہ پھینکا تو اس کی وجہ جاننے کے لئے اس کے گھر چلے گئے اورجب معلوم ہوا کہ بوڑھی عورت بیمار ہے تو آپۖ نے اس کی عیادت اورخدمت کرنا شروع کردی۔ہمارے نبی اکرمۖ نے برداشت کے حوالے سے ہمیںجو پیغام دیا تھا اس کو سب نے بھلا دیا ہے۔معاشرے میںچھوٹی چھوٹی باتوں پر عدم برداشت کا مظاہرہ عام ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آپس میں نفرت اور انتقام لینے کا جذبہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انہی منفی رویوں کی وجہ سے کئی قومیں پہلے بھی تباہ ہوچکی ہیں۔اس لئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اندر برداشت پیدا کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کی معمولی باتوں پر جھگڑا کرنے اورملک میں فساد پیدا کرنے کی بجائے معافی اور درگزر کے رویے کو فروغ دینا ہوگا۔اس حوالے سے علماء کرام اور سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ وہ آنے والی نسلوں کو محفوظ اور امن پسند معاشرہ مہیا کرنے کی خاطر برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے ہرممکن کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔