... loading ...
ریاض احمدچودھری
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال دْوراندیش شخصیت تھے۔ اْن کے خیالات، افکار ہر لحاظ سے قابل تقلید اور ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں پر اْن کے بیش بہا احسانات ہیں۔ اپنے کلام کے ذریعے اْنہوں نے مسلمانوں کو اْن کے حقوق سے روشناس کرایا۔ اْن میں آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ یہودیوں اور مسئلہ فلسطین کے متعلق اْن کی سوچ بڑی واضح تھی۔ اپنی شاعری کے ذریعے اور مختلف مواقع پر اپنی گفتگو میں اس حوالے سے اْنہوں نے اپنے خیالات کا واضح اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔
عالمی مجلس، بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں”علامہ محمداقبال اور فلسطین”پرعبدالرزاق نے کہاکہ علامہ کوپہلی جنگ عظیم کے بعدآنے والی صورتحال کااندازہ ہوگیاتھااسی لیے انہوں نے “فلسطینی عرب”کے عنوان سے جونظم لکھی اس کے مندرجات آج سچ ثابت ہورہے ہیں۔علامہ نے قائداعظم کو مسئلہ فلسطین کی بابت متعددخطوط لکھے اورعلامہ نے برملااس موقف کااظہارکیاکہ اگر فلسطین پر یہودیوں کاحق ہے تواندلس بھی مسلمانوں کے سپردکیاجائے۔انہوںنے اقوام متحدہ کوسخت تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اس ادارے کی قراردادوں سے مسلمانوں کوکوئی قرارمیسرنہیں آیا۔ حالیہ کشمکش میں اسرائیلیوں کاجتناجانی ومالی نقصان بتایاجارہاہے حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے اور اسرائیلی وزیراعظم کا بھتیجابھی ماراجاچکاہے۔ شیخ احمدیاسین نے معذوری کے باوجود فلسطینیوں کے لیے یونیورسٹی کی بنیادرکھی اور اس فلسطینی راہنمانے صرف ایک ہی بیرونی دورہ کیاتھاجس میں ایران کے اندرانہوں نے امام خمینی سے ملاقات کی۔ علامہ نے بہت پہلے بتادیاتھاکہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہودمیں ہے اوروہ 1931 میں اپنادورہ لندن مختصرکرکے یروشلم کے اندر فلسطین کانفرنس میں شریک ہوئے۔ 1935میں علامہ اورقائداعظم کے درمیان مسئلہ فلسطین پر خط وکتابت رہی۔شرکاء نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کاراستہ راہ حجازسے ہوکرگزرتاہے انہوں نے مسلمان حکمرانوں کی بے حسی پرافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ خود شاسی اورخداشناسی کے ذریعے شعور اجاگر کیا جاسکتا ہے اوراسی طرح ہی فکری غلامی اورذہنی انتشارسے نجات پاکر اتحادامت کی منزل تک پہنچناممکن ہے۔ بہت دردانگیزصورحال ہے اور اقبال اگر طرابلس کی فاطمہ پر نوحہ کرسکتے ہیں توفلسطین کے بچے ان کو کہیں زیادہ عزیزہوں گے۔ یہ دوعقیدوں کی جنگ ہے جس میں یہودنے اپنی الہامی کتب میں تحریف کرکے مسلمانوں کے خون کو مباح قراردے دیاہے اوریہ خدائی تعلیمات ہرگزنہیں ہوسکتیں۔
یہ صرف فلسطینیوں کایاعربوں کامسئلہ نہیں ہے بلکہ مغرب نے ایشیاء کے دروازے پر اپنا چوکیدار بٹھا دیاہے۔1937ء میں علالت کے باوجودعلامہ نے مسئلہ فلسطین پرایک جلسہ منعقدکیاتھا۔ چندفلسطینی مسلمان نوجوان اگرمملکت اسرائیل کی زبردست پٹائی لگارہے ہیں تو کل امت مل کرجائے تو اس ناجائزریاست کو چندلمحوں میں بآسانی نیست ونابودکیاجاسکتاہے۔ مسئلہ فلسطین پر علامہ نے برطانوی پارلیمان کوبھی خطوط لکھے تھے۔ ہماری جنگ جنگلی جانوروں سے بھی بدترقوم سے ہے جسے بچوں،عورتوں اور ہسپتالوں پر بھی بمباری سے عارنہیں۔ یہ قوم تہذیبوں کی قاتل اورآدم خودقوم ہے اورسیکولراہل مغرب ان کے ساتھ مل کر جمہوریت کے نام پردرندگی پھیلارہے ہیں۔مسلم حکمران میزوں،کاغذوں اوربیانات پراکتفاکیے بیٹھے ہیں جب کہ مسئلے کاحل یہ ہے کہ دشمن سیدشمن کی زبان میں بات کی جائے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں ”فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے، یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔ یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں، یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے، جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعثِ شرم ہے، جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا۔”اقبال اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد جناح کو لکھتے ہیں: ”میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے… یہ ایشیا کا دروازہ ہے جس پر بْری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں”۔
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
علامہ اقبال30 جولائی 1937ء کو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:”عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پرآمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔