... loading ...
حمیداللہ بھٹی
عام انتخابات سے قبل بنگلہ دیش میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ اپوزیشن اور گارمنٹس ورکرز سراپا احتجاج ہیں۔تمام ترحکومتی کوششوں کے باوجودحالات بے قابوہیں ۔55ارب ڈالر کی برآمدات میں پچاسی فیصد حصہ گارمنٹ فیکٹریوں کی پیداوار کا حصہ ہے۔ حالیہ بے چینی سے بنگلہ دیش کی معیشت شدید متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ یہ فیکٹریاں لیوائز ،زارا،ایچ اینڈ ایم سمیت کئی معروف عالمی برانڈز کو تیار ملبوسات فراہم کرتی ہیں لیکن 3500 فیکٹریوں کے کسمپرسی کا شکار چالیس لاکھ ورکرزجن میں اکثریت خواتین کی ہے کی ماہانہ اُجرت محض 8300ٹکے یا 75ڈالر ہے۔ تنخواہوں میں اضافے کے لیے شروع ہونے والے مظاہرے پُرتشددہو چکے ہیں۔ اپوزیشن اور ورکرز کے احتجاج سے حکومت دوطرفہ دبائو میں ہے۔ ابتدامیں حکومت نے ورکرز سے اپوزیشن جیسا سلوک کیا جس سے کچھ احتجاجی مارے گئے۔ اب حکومت نے مظاہروں کی پاداش میں گیارہ ہزار افراد پر مقدمات بنا دیے ہیں جس سے مزید مظاہروں کا خدشہ ہے۔ اسی خوف سے مالکان نے دوسو فیکٹریاں غیرمعینہ مدت کے لیے بند کردی ہیں۔ ظاہر ہے یہ بے روزگار ورکر سیاسی جماعتوں کے لیے ایندھن ثابت ہوں گے۔ سیاسی رہنماؤں اور بڑی تعداد میں فیکٹری ورکروں پر مقدمات کا احمقانہ فیصلہ بے چینی میں کمی کے بجائے اضافے کا موجب بن سکتاہے ۔
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد 2009سے مسلسل ملک کی وزیراعظم ہیں مگر ایسے حالات میں جب اگلے برس کے آغاز جنوری میں پارلیمانی انتخابات متوقع ہیں سے قبل بدترین بے چینی ملک کے لیے نیک فال نہیں۔ اِس میں اپورزیشن جماعتوں کے علاوہ دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ ہیں ،وہ ملک کے سابق صدر ضیاء الرحمن کی بیوہ ہیں جو صدربننے سے قبل فوج میں بھی رہے۔ انھوں نے فوجی عہدے سے سبکدوشی کے بعدسیاسی جماعت بی این پی کی بنیاد رکھی 30 مئی 1981 کوشوہر کے مارے جانے کے بعد خالدہ ضیا نے جماعت کی سربراہی سنبھالی اور تین بار ملک کی وزیرِاعظم منتخب ہوئیں لیکن ایک خاتون وزیرِ اعظم کے اقتدار میں یہ 76 سالہ خاتون کرپشن کے بے بنیاد الزامات کی وجہ سے قید میں ہے بنگلہ دیش پراِن دونوں خواتین رہنمائوں حسینہ واجد اور خالدہ ضیاکی گرفت بہت مضبوط ہے۔ کئی عشروں سے جاری اِن کی محازآرائی کو دنیا بیگمات کی لڑائی کانام دیتی ہے مگر جس طرح پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ سیاسی بے چینی میں اپوزیشن کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں۔ اِن پر قابو پانے کے لیے شیخ حسینہ واجد ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں لیکن تمام ترکوششوں کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپارہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالیہ بے چینی کے عوامل اندرونی سے زیادہ بیرونی ہیں اوربنگلہ دیش آج کل بڑی طاقتوں کے درمیان جاری رسہ کشی کا شکارہے۔ عین ممکن ہے اِس بات میں کسی حد تک صداقت ہو لیکن بے چینی کو بڑھانے کی ہم وجہ شیخ حسینہ واجد کی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں اورآئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں ہیں مگر بیگم خالدہ ضیا نے گزشتہ انتخابات کے بائیکاٹ سے سیکھ لیاہے کہ مخالف کو موقع نہیں دینابلکہ مقابلہ کرناہے جس سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت بڑھتاجارہاہے اور بے چینی فروغ پارہی ہے۔
برداشت اور رواداری کا نام ہی جمہوریت ہے مگر یہ اوصاف شیخ حسینہ واجد میں دور دورتک نہیں ۔اسلام پسندوں پر غداری کے الزامات لگا کر سزائے موت دلوانااور حریف جماعتوں کی قیادت پر بدعنوانی کے کیس بنواکرسزائیں دلونا انتقامی سوچ ظاہرکرتے ہیں ۔کیونکہ مقدمات میں شفافیت کافقدان واضح ہے مگر من پسندعدالتوں سے فیصلے حاصل کرنے کے باوجود وہ اپناسیاسی راستہ صاف نہیں کر سکیں۔ مخالف سیاستدانوں پر عرصہ حیات تنگ کر نے سے ہی بیگم خالدہ ضیا نے انتخابات کا ہی بائیکاٹ کیا۔یوں نصف سے زائد نشستوںپر عوامی لیگ کے امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے جبکہ بقیہ زیادہ تر نشستوں پربھی مقابلہ یک طرفہ رہا لیکن بھارت کی ایما پر دنیا نے غیر شفاف اور عوامی امنگوں کے برعکس نتائج کوبھی تسلیم کرلیا۔ شیخ حسینہ واجد کی اقتدارکے چودہ برسوں کے دوران مخالف سیاستدانوں کے خلاف کاروائیوں نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کر دیا ہے اِس وقت ملک میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ،سابق صدر حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی اور جماعت اسلامی احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ سب کا یک نکاتی مطالبہ ملک میں عام انتخابات سے قبل ایک ایسی غیرجانبدار نگران حکومت ہے جو تمام جماعتوں کے لیے قابلِ قبول آزادنہ ،منصفانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنائے مگر وزیرِ اعظم حسینہ واجد ایسے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور چاہتی ہیں کہ انتخابی عمل انھی کی حکومت میں مکمل ہو تاکہ ماضی کی طرح کے نتائج حاصل کرسکیں لیکن اپوزیشن ایسا کوئی موقع دینے کو تیارنہیں۔
جمہوری ممالک میں اختلافِ رائے پر شہری احتجاج اور مظاہرے کر سکتے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں احتجاج اور مظاہروں کو حکومت دشمنی تصورکیا جاتا ہے ۔مظاہرین سے روارکھی جانے والی سختیوں کا جواز حکومت یہ پیش کرتی ہے کہ دراصل دو عشروں سے حاصل کیے جانے والے معاشی ثمرات کو کسادبازاری اور افراطِ زر کے مُضر اثرات سے بچاناہے تو سیاسی استحکام ناگزیر ہے مگر حیران کُن امر یہ ہے کہ عوامی لیگ کواپنے اقتدار میں توسیاسی استحکام یادآتا ہے اور معاشی ثمرات کاتحفظ عزیز لگنے لگتا ہے لیکن حکومت سے باہر ہو تو ایسا خیال نہیں کیاجاتا۔ یہی سوچ نفرت بڑھانے کا باعث ہے اور تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت سے ایک غیر جانبدار حکومت بنانے کا مطالبہ منوانے کے لیے سڑکوں پرآچکی ہیں ۔حکومتی حلقوں کاکہناہے کہ چین سے دفاعی ،تجارتی اور معاشی تعلقات کی مضبوطی کچھ طاقتوں کو ناگوارہے۔ بنگلہ دیش کے پاس دو آبدوزیں ہیں جو اُسے نے 2016میں چین سے خریدیں ۔ علاوہ ازیںچین کی بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری چالیس ارب ڈالر سے تجاوزکرچکی ہے اور وہ بنگلہ دیش کا سب سے بڑاتجارتی شراکت دار ہے۔ اسی بناپرقیاس کیاجاتاہے کہ مظاہروں کی پشت پربھارت اور امریکہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بحرہندکے مشرقی بازوخلیج بنگال میں بنگلہ دیش کی چین سے قربت چین کو گھیرنے جیسے منصوبوں میں رخنہ ڈال سکتی ہے اوربنگلہ دیش کو چین سے دورکرنے کے لیے سیاسی عدمِ استحکام پیداکیا جارہا ہے لیکن اِس قیاس آرائی کو اِس بناپردرست نہیں کہہ سکتے کیونکہ بیگم خالدہ ضیا نہ صرف بیمار بلکہ نظربندہیں۔ نیزشیخ حسینہ واجد کابھارت کے لیے نرم گوشہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِن حالات کی بناپر بیرونی عوامل کی بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ ویسے بھی جب سپریم کورٹ سے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت جماعت اسلامی پر پابندی لگوانے سمیت ملک میںانسانی حقوق سلب کرنے کے ساتھ آزادانہ لکھنے اور بولنے پر قدغن ہے۔ ایسے حالات سے تنگ آکر عوام کی بڑی تعداد جلسوں اور مظاہروںمیں شامل ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک لاکھ سے زائد شہریوں نے ڈھاکہ میں احتجاج کیا ۔ریاستی طاقت کے بدترین استعمال کے باوجوداپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے لیے نگران حکومت جیسے مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
شیخ حسینہ واجد اِس حد تک اقتدار پرست ہیں کہ وہ اپنے اقتدارکو ملک کے لیے ناگزیر تصورکرتی ہیںاور ہرتنقیدچاہے اپوزیشن سے ہو یا پھر صحافی و دانشور کرے ملک دشمنی کے ذمرے میں شمارکرتی ہیں۔اگرورکرزتنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کریں توبھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں، اسی بناپر اپوزیشن رہنمائوں سمیت صحافی و دانشور بھی ہراس کا شکار ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ حسینہ واجد نے ملک میں ایک پارٹی کی آمریت قائم کررکھی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔مگر مخالف سیاسی جاعتوں کوکچلنے کے لیے اِداروں کے بے دریغ استعمال کے باوجودبے چینی کم نہیں ہورہی۔ حالانکہ اپوزیشن کا مطالبہ انہونی بات نہیںکیونکہ 1996سے لیکر 2008کے انتخابات نگران حکومتوں نے ہی کرائے مگر دوتہائی اکثریت ملنے پروزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے 2011میں آئین میں پندرہویں ترمیم کے ذریعے نگران حکومت بنانے کا راستہ بند کر دیا یہ ترمیم ملک میںبے چینی کی اہم ترین وجہ ہے اورورکرز کی کم تنخواہوں نے بے چینی کے اسباب میں اضافہ کیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔