... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
قومی انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کا اتحاد بننا کوئی نئی اور انوکھی بات ہرگز نہیں ہے ۔اگر بہ نظر ِ غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوگا کہ سندھ کی سیاسی تاریخ میں اَب تک ایک بھی قومی انتخاب ایسا نہیں گزر اہے، جس میں پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد تشکیل دے کر اِسے شکست دینے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد کیوں بنائے جاتے ہیں ؟ کیونکہ اِس سوال کا جواب تو ہم سب ہی بخوبی جانتے ہیں کہ ہر انتخاب سے قبل سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف انتخابی اتحاد بنایا ہی صرف اِس لیے جاتاہے کہ کسی طرح صوبہ سندھ سے پیپلزپارٹی کی انتخابی سیاست کو کمزور و ناتواں کر کے بے اثر کیا جا سکے۔مگر جس سوال کا جواب آج تک کوئی بھی شخص جان نہ پایا وہ یہ ہے کہ آخرپاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف اتنے بھانت بھانت کے سیاسی اتحاد بنانے کے باوجود بھی پولنگ والے دن اچانک ایساکیا سیاسی معجزہ ہوجاتا ہے کہ پیپلزپارٹی ہر آنے والے انتخاب میں پہلے سے بھی زیادہ سیاسی قوت کے ساتھ مخالفین کو شکست سے دوچار کردیتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال 2018 کے انتخابات کی دی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ 2018 کے انتخابات میں صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے دو درجن سے زائد سیاسی اور سندھ قوم پرست جماعتوں پر مشتمل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنایا گیا تھا۔مگر جب پولنگ والے دن انتخابی نتائج برآمد ہوئے تو پیپلزپارٹی مخالف یہ وسیع وعریض اتحاد عبرت ناک شکست سے دوچار ہوا،اور یہ نام نہاد انتخابی اتحاد اتنی تعداد میں بھی انتخابی نشستیں جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکا تھا کہ جتنی تعداد میں اِس اتحاد میں سیاسی جماعتیں شامل تھیں ۔اَب تک بننے والے پیپلزپارٹی مخالف انتخابی اتحاد سے یہ ہی نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ سندھ میں انتخابی اتحاد بننے سے پیپلزپارٹی کو سیاسی فائدہ ہوتاہے اور اپنے خلاف تشکیل پانے والے ہر اتحاد کو پیپلزپارٹی دیہی اور شہری سندھ میں اپنے حق میں کمال مہارت سے استعمال کرتی ہے۔ اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ رواں ہفتے مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان جو سیاسی و انتخابی اتحاد ہوا ہے ۔اِس کا شاید اتنا فائدہ مسلم لیگ ن یا ایم کیو ایم کو نہ ہو کہ جتنا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا۔
ہماری دانست میں مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کے اتحاد سے دونوں جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ بس یہ ہی سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتاہے کہ ایم کیو ایم کے تعاون سے ن لیگ کو کراچی میں کچھ انتخابی نشستیں حاصل ہوجائیں اور ایم کیوایم پاکستان کو اِس خدمت شعاری کے عوضانہ کے طور پر اگر مسلم لیگ ن کی مستقبل میں وفاقی حکومت بنتی ہے، جس کا کہ انتہائی قوی امکان ہے تو اُسے وفاق میں دو ، تین اچھی سی وفاقی وزارتیں مل جائیں ۔ ویسے بھی انتخابی اتحادوں میں ووٹرز، ووٹ فقط اپنے امیدوار کو ہی دیتے ہیں دوسری اتحادی جماعت کے امیدوار کو صرف سپورٹ دی جاتی ہے۔چونکہ 2018 کے انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کی بہت سی نشستیں زبردستی پاکستان تحریک انصاف کو دلوادی گئی تھیں۔لہٰذا،ایم کیوایم مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی وہ تمام نشستیں دوبارہ سے حاصل کرنا چاہتی ہے ۔مانا کہ مسلم لیگ ن کی کراچی میں سیاسی تنظیم مضبوط نہیں ہے مگر ن لیگ کا سندھ میں اتنا ووٹ بنک ضرور موجود ہے ،جو اگر ایم کیو ایم پاکستان کو حاصل ہوجائے تو اُس کی مدد سے کم ازکم کراچی اور حیدرآباد میں وہ اپنی پرانی سیاسی قوت کے ساتھ ضرور سامنے آسکتی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد کرکے جہاں کراچی میں کچھ انتخابی نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے ،وہیں اِس اتحاد کی بدولت بلاول بھٹو زرداری کے وزارتِ عظمیٰ کے خواب بھی بکھیرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پیپلزپارٹی نے اپنے آپ کو کراچی میں بھی سیاسی طور پر کافی مضبوط کیا ہے اور یہ سیاسی مضبوطی آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کراچی سے چند انتخابی نشستیں جیتنے کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ یوں مسلم لیگ ن نے ایم کیوایم کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے اِس امکان کو ختم کرنے کی اپنی سی ایک سیاسی کوشش کی ہے ۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر دونوں جماعتوں کے اتحاد میں سندھ کی مزید سیاسی اور قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہوجائیں تب بھی مذکورہ اتحاد کراچی کے علاوہ سندھ بھر میں کہیں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو کوئی بہت بڑا سیاسی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے صرف ایک دہائی پہلے پیپلزپارٹی سندھ میں فقط دیہی علاقوں تک محدود سمجھی جاتی تھی لیکن گزشتہ دس سال کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی کو چھوڑ کر سندھ کے تمام شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی اپنی تمام مخالف جماعتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہوئی ہے ۔ جس کی کئی بنیادی نوعیت کی وجوہات ہیں جس میں سے سب سے اہم وجہ سندھ کے شہری علاقوں میں اُردو بولنے والے بڑے طبقہ کا جوک در جوک پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا ہے۔اگر حیدرآباد ،نواب شاہ ،سکھر اور میرپورخاص کی حالیہ سیاست کا جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر کہا سکتا ہے پیپلزپارٹی نے کافی حد تک ایم کیو ایم کو شہری سیاست کے منظر نامہ سے آؤٹ کردیا ہے، کبھی ان اہم ترین شہری علاقوں میں بلدیاتی چیئر مین اور کونسلرز وغیرہ تو بہت چھوٹی بات ہے ممبر صوبائی اسمبلی تک کی اکثریت بھی ایم کیوایم کے انتخابی نشان پر باآسانی منتخب ہوجاتی تھی لیکن گزشتہ دس سالوں سے ہر سطح کے انتخابی معرکوں میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کے طرزِ سیاست کو بری طرح شکست دی ہے۔جس کی وجہ سے آج ان شہروں سے منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تو بات ہی کیا کرنا بلدیاتی نمائندوں کی بڑی اکثریت بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے منتخب ہوکر آئی ہے ۔
دیکھنے والی سیاسی آنکھ ہو تو بآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ سندھ کے تمام شہری علاقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی بھاری ترین مینڈیٹ کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور اس میں زیادہ کردار سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی معروف مفاہمتی سیاست کا ہے۔جنہوں نے شہری سندھ میں ایم کیوایم کی طرف سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو بروقت محسوس کیا اور شہری علاقوں میں اُن تمام افراد سے اپنے سیاسی روابط استوار کیئے جو شہری سیاست میں ایم کیو ایم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ ماضی میں شہری علاقوں میں رہنے والی جو برادریاں ایم کیوایم کے لیئے کام کرنا فخر محسوس کرتی تھیں آج وہ پیپلزپارٹی کی صفوں میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر براجمان نظر آتی ہیں اور رہی سہی کسر متحدہ قومی موومنٹ کی حالیہ سیاسی تقسیم نے پوری کردی ہے ۔ہمارا مقدمہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی سیاست قوت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا،یقینا ضرور کیا جاسکتاہے۔مگر اِس کے لیے مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم کے منحنی سے انتخابی اتحاد کے علاوہ کچھ بہت بڑا سوچنا ہوگا۔
٭٭٭