وجود

... loading ...

وجود

کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟

اتوار 12 نومبر 2023 کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟

عماد بزدار

۔۔۔۔۔
میں سہیل وڑائچ کا 16 جون 2020 کا کالم ”اوورسیز”پڑھ رہا ہوں۔ابھی عمران حکومت کو دو سال پورے نہیں ہوئے وڑائچ صاحب عمران حکومت سے مایوس ہوکر اوورسیز کی خبر اپنے کالم میں یوں لیتے ہیں۔
”اوورسیز بھائیوں کی تمام تر نیک نیتی کے باوجود عرض یہ کرنا تھا کہ آپ زمینی حقائق سے دور بیٹھے ہیں، آپ کے تجویز کردہ حل ہمارے لئے کارگر نہیں ہیں۔ آپ ہمارا اچھا چاہتے ہیں تو ہم پر اپنے حل اور فارمولے مت ٹھونسیں”۔
اوورسیز کی اکثریت چونکہ عمران حامی ہے اس لئے ہمارا نام نہاد انٹیلیجنشیا انہیں ہمیشہ ہدف تنقید بناتا ہے خورشید ندیم انہیں پوسٹ ٹروتھ کا شکار بتاتا ہے تو سہیل وڑائچ انہیں زمینی حقائق سے لاعلمی کا طعنہ دیتا ہے ۔ ان اعتراضات کو پڑھ کر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں موجود ووٹر نہ صرف زمینی حقائق سے باخبر ہے بلکہ اوورسیز کے مقابلے میں وہ زیادہ باشعور بھی ہے ۔ آپ ان اعتراضات پر ذرا
گہرائی میں جا کر غور کریں تو ان اعتراضات کا سطحی پن کھل کر آپ کے سامنے آتا ہے ۔ جہاں تک حقائق سے لاتعلق یا بے خبر ہونے کی بات ہے تو اس وٹس ایپ ، ٹوئٹر، فیس بک کے اس دور میں کوئی کیسے زمینی حقائق سے بے خبر رہ سکتا ہے ؟ کونسی ایسی معلومات ہے جس کی رسائی باہر بیٹھے ہوئے شخص تک نہیں؟یہاں کا ووٹر باشعور ہے اور زیادہ سوچ سمجھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے ؟ کیا واقعی؟ گاؤں دیہاتوں میں یہاں گودا سائیں، وڈیرا یا سردار کا راج ہے جس نے تھانے کچہری کی سیاست کے ذریعے یہاں کے عام آدمی کو جکڑا ہوا ہے، اس ووٹر کی اکثریت کو ٹرالیوں بسوں میں بھر بھر کر گودے وڈیرے سردار اپنے حق میں ووٹ دلوانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ شہروں میں نالی اور گلی پختہ کرانے کے وعدے پر شہر کا سرمایہ دار اپنے آپ کو ووٹ کا حق دار بناتا ہے ۔ اس کے برعکس جو ملک سے باہر بیٹھا ہوا بندہ یا بندی ہے وہ یہاں موجود بے بس مزارع ، ہاری ، مزدور کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزادی سے اپنی رائے رکھتا اور اظہار کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود اشرافیہ کے سہولت کار ہمارے اہل دانش نے لکھ لکھ کر صفحے کالے کیے کہ یہاں رائے تو بس انہی بندوں کی مستند ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔
میرے سامنے وڑائچ صاحب کا ایک اور کالم ہے جس کا عنوان ”حمزہ کا مقدر ” ہے۔ 22 اپریل 2022 کو لکھے گئے اس کالم میں کیسے بڑے عہدوں کی بندر بانٹ ایک ہی خاندان میں کرنے کو جواز بخشتے ہیں۔ آیئے پڑھتے ہیں
” معترضین کا یہ کہنا کہ اوپر باپ وزیراعظم اور نیچے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بیٹا، یہ ہے تو حقیقت لیکن اس حقیقت کے وقوع پزیر ہونے میں پلاننگ کم اور حالات کا جبر زیادہ ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ میں پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز سے کوئی بڑا نام اور
تجربہ والا لیڈر بھی موجود نہ تھا”۔
اہم ترین عہدوں پر باپ بیٹے کو سند جواز عطا کرنے کے بعد اسی کالم میں وڑائچ صاحب حمزہ کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
” حمزہ شہباز شریف رومانوی آدمی ہیں وہ عوامی خدمت کو بھی رومانس سمجھ کر کرتے ہیں، عہدوں کا لالچ نہیں ہے مگر اب اگر اتنا بڑا عہدہ ملا ہے تو انہیں اس عہدے کے مطابق اپنے کام کی رفتار کو بڑھانا ہوگا۔شہباز شریف گورننس اور تیز رفتاری میں نمایاں تھے ، حمزہ شہباز کو بھی اس حوالے سے ان کی پیروی کرنا ہو گی، شہباز کی پنجاب اسپیڈ سب کو یاد ہے ، حمزہ کو اپنی اسپیڈ کا ریکارڈ بنانا ہو گا”۔
” اس کے آنے کے بعد” کے عنوان سے ہی سمجھ جائیں کہ کس کا ذکر ہورہا ہے۔ یہ کالم24اکتوبر 2023ء کا لکھا گیا ہے ۔ صرف یہی کالم ہی نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ آج کل جو کالم لکھ رہے ہیں،ان میں بظاہر تو عمران سے ہمدردی کا اظہار کیا جارہا لیکن بڑی باریکی سے جو واردات ڈالی جارہی ہے ،وہ یہ کہ میاں صاحب کے حق میں ذہن سازی کی جارہی ہے کہ ان کا چوتھی دفعہ وزیراعظم بن جانا لوح محفوظ پر لکھا جاچکا ہے۔ اس کے وزیر اعظم بننے کے راستے میں وقت کی محض کچھ ساعتیں حائل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ میاں کی مظلومیت کو جسٹیفائی کرنے کے ساتھ ساتھ وڑائچ صاحب ان سے دست بستہ گزارش کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ شہنشاہ عالم پناہ ! وزیر اعظم بننا تو آپ کا طے ہے یہ بھی حقیقت ہے آپ کو محض اقامہ پر ہٹایا گیا تھا ورنہ آپ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ،بس حکومت میں آکر عنایت خسروانہ سے کام لیتے ہوئے کھلاڑی کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ وجہ عمران کی محبت یا کوئی اصولی مؤقف نہیں ، سادہ لوح لوگوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ میں ایک غیر جانبدار کالم نگار ہوں۔
” وہ واپس آیا ہے تو سب کچھ یک دم بھول تو نہیں سکتا اس کے خلاف پاشوں، ظہیرالاسلاموں اور رضوانوں نے جو جو گل کھلائے جو جو سازشیں کیں وہ سب اسے یاد ہوں گی۔ فیض حمیدوں، باجوئوں اور راحیل شریفوں کے خفیہ اور کھلے وار اسے کچوکے تو لگاتے ہوں گے ۔
کھلاڑی اور عسکری خان مل کر جو جو کرتے رہے وہ بھلانا مشکل ہو گا اسے وہ انصاف خان بھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے پانامہ کے نام پر اقامہ کے ذریعے اسے سزا دی، نااہل قرار دیا، اسکے مینڈیٹ کے باوجود اسے گھر بھیج دیا”۔
پیرا پڑھ کر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ اس ملک میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے محض 6 جرنیل تھے جنہوں نے پہلی اور آخری دفعہ میاں مظلوم کے خلاف سازشیں کیں۔ اس ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد کبھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی رول رہا۔ یہ جو پانامہ ہے یہ بین الاقوامی سازش پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عمران کے ساتھ مل کر میاں صاحب کے خلاف گھڑا تھا تاکہ میاں صاحب کو اقتدار سے ہٹایا جائے ۔ایسی ادھوری سچائیاں لکھ کر ہینگ اور پھٹکری لگائے بغیر چوکھا رنگ اس طرح آتا
ہے کہ مظلومیت کا بیانیہ بناتے ہوئے نون کی سربراہی میں حالیہ 16 مہینے کی بد ترین حکومتی پرفارمنس کے دفاع کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔
وڑائچ صاحب! اب آپ کی زبانی آپ سے پوچھوں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر